• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

وہاٹس ایپ گروپ کا حصہ ہونا مجرمانہ سرگرمی کا ثبوت نہیں: عمر خالد

Updated: February 21, 2025, 4:01 PM IST | New Delhi

سماجی کارکن عمر خالد نے آج دہلی ہائی کورٹ سے کہا کہ ’’محض وہاٹس ایپ گروپ کا حصہ ہونا مجرمانہ سرگرمی میں ملوث ہونے کا اشارہ نہیں ہے۔‘‘ یاد رہے کہ عمرخالد دہلی فسادات کےکیس میںگزشتہ ۴؍ برسوں سے جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

Umar Khalid. Photo: INN
عمر خالد گزشتہ ۴؍ برسوں سے جیل میںقیدہیں۔ تصویر: آئی این این

سماجی کارکن عمر خالد، جو ۲۰۲۰ء سے دہلی فسادات کے کیس میں جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں، نے آج ہائی کورٹ سے کہا کہ ’’محض وہاٹس ایپ گروپ کا حصہ ہونا مجرمانہ سرگرمی میں ملوث ہونے کا ثبوت نہیں ہوسکتا۔‘‘ عمر خالد کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ ’’ صرف وہاٹس ایپ گروپ کا حصہ ہونا اس بات کا اشارہ نہیں ہے کہ آپ نے کچھ غلط کیا ہے، اس کیس میں نے تو کچھ کہا ہی نہیں ہے۔‘‘ عمر خالد نے عدالت سے کہا کہ ’’کسی نے مجھ سے مظاہرے کی جگہ معلوم کی تھی اور میں نے صرف وہی بھیجی تھی۔ کسی نے مجھے پیغام بھیجا تھا۔ اگر کسی نے مجھ سے کوئی اطلاع مانگی ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ مجھ سے منسوب ہے۔ جو بھی ہو اس پیغام میں کوئی مجرمانہ حرکت نہیں ہے۔‘‘ وکیل پردیپ بائس عدالت میں مجرمانہ سازش کے ثبوت کے طور پر ایک واٹس ایپ گروپ میں خالد کی شرکت کے حوالے سے دہلی پولیس کے حوالے سے جواب دے رہے تھے۔

یہ بھی پڑھئے: یوپی سرکار کا بجٹ پیش، طالبات اور نوجوانوں کیلئے سوغات

چارچ شیٹ میں پولیس نے الزام عائد کیا ہے کہ ’’عمر خالد نے حکومت سے نفرت کرنے والے افراد کو جمع کیا تھا جس کی وجہ سے وہاٹس ایپ پر’’دہلی پروٹیسٹ گروپ‘‘کا قیام عمل میں آیا۔‘‘ پولیس نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ ’’یہ وہاٹس ایپ گروپ تب بنایا گیا تھا جب عمر خالد نے شرجیل امام کے ساتھ مل کر ’’جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے مسلم طلبہ کے گروپ‘‘ کو تشدد پر اکسانے کیلئے ان کی رہنمائی کی تھی۔‘‘ پائس نے یہ بھی الزام عائد کیا تھا کہ ’’دیگر افراد جیسے دہلی کانگریس کی کاؤنسلر عشرت جہاں اور کارکن دیونگنا کلیتہ نے ’’عمر خالد کے ساتھ ملوث ہونے کے علاوہ بھی بہت کچھ کیا ہے اور اب وہ ضمانت پر باہر ہیں۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: یوپی سرکار کا بجٹ پیش، طالبات اور نوجوانوں کیلئے سوغات

عمر خالد کو کب حراست میں لیا گیا تھا؟
یاد رہے کہ عمر خالد کو ستمبر ۲۰۲۰ء میں شمالی دہلی میں فروری ۲۰۲۰ء میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے حامی اور مخالف افراد کے درمیان ہونے والے تصادم کے سلسلے میں حراست میں لیا گیا تھا۔ اس تشدد کے نتیجے میں ۵۳؍ افراد نے اپنی جانیں گنوائی تھیں جن میں زیادہ تر مسلم تھے۔ عمر خالد اور دیگر سماجی کارکنان کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں سے حفاظت کے ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ دہلی پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شمالی دہلی میں ہونے والا تشدد وزیر اعظم نریندرمودی کی حکومت کی ساکھ کو خراب کرنے کی بڑی سازش کا حصہ تھا اور اسے مظاہروں کا انعقاد کرنے والے افراد نے منعقد کیا تھا جن میں عمر خالد بھی شامل ہیں۔ پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ مظاہرین کا مقصد اعتزالی تھا اور وہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کیلئے ’’سول نافرمانی کا دکھاوا‘‘ کررہے تھے۔ نومبر ۲۰۲۰ء میں ۲۰۰؍ صفحات کی چارچ شیٹ میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ ’’عمر خالد ’’دور سے ان مظاہروں کوکنٹرول‘‘ کررہے تھے۔ انہوں نے ایک ’’خفیہ میٹنگ کا انعقاد کیا تھا جس میں مبینہ طور پر مظاہروں کا خاکہ پیش کیا تھا۔‘‘ ہائی کورٹ نے ۴؍مارچ ۲۰۲۵ء تک اس کیس کی سماعت کو ملتوی کر دیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK