موجودہ جج کی زہر افشانی اور آئین کی توہین پرسیاسی ،سماجی اور قانونی حلقوں کا شدید ردعمل، سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لے کر شیکھر یادو کو اُن کے عہدے سے ہٹانے کی مانگ کی گئی۔
EPAPER
Updated: December 10, 2024, 10:32 AM IST | Ahmadullah Siddiqui | New Delhi
موجودہ جج کی زہر افشانی اور آئین کی توہین پرسیاسی ،سماجی اور قانونی حلقوں کا شدید ردعمل، سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لے کر شیکھر یادو کو اُن کے عہدے سے ہٹانے کی مانگ کی گئی۔
الہ آبادہائی کورٹ کے موجودہ جج جسٹس شیکھر کمار یادو کے ذریعہ وشو ہندو پریشد کے ایک پروگرام میں آئین اور مسلمانوں کے خلاف شدید زہر افشانی اور ملک کواکثریت کی خواہش کے مطابق چلائے جانےاور اسی کو ملک کا قانون بتانے پرسیاسی ،سماجی و قانونی حلقوں نے سخت ردعمل کااظہار کیا ہے۔ ملک کی اہم شخصیات نے اس نفرت پھیلانے والے جج کو فوری طور پربرخاست کرنے کا مطالبہ کیا۔ خیال رہے کہ مسلمانوں کے خلاف انتہائی ہتک آمیز زبان کا استعمال کرتے ہوئے جسٹس شیکھر یادو نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ نہ صرف ملک کا قانون اکثریت کے مطابق کام کرتا ہے بلکہ اکثریت کو جس سے خوشی ہوتی ہے،اسی کو قبول کیا جائےگا۔شیکھر کمار کی زہر افشانی پر سوشل میڈیا پر لوگ یہ بھی سوال اٹھارہے ہیں کہ ایسے ججوں کی موجودگی میں اقلیتوں کو کس طرح سے انصاف ملے گا؟
سی پی آئی (ایم) نے جسٹس شیکھر کی نفرت انگیزی پر سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک جج کے ذریعہ اکثریتی نظریات اور فرقہ وارانہ نفرت کو فروغ دینا ناقابل قبول ہے۔ سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے اور جج کو برطرف کیا جائے۔راجیہ سبھا کے سابق رکن ، مرکزی حکومت کے سیکریٹری اور پرسار بھارتی کے سابق سی ای اوجواہر سرکار نے مطالبہ کیا کہ اس جج کو وی ایچ پی کے فرقہ وارانہ پروگرام میں شرکت کرنے،اقلیتوں کو اکثریت کی تابعداربتانےاور مساوات کے حق کوکچلنےپر فوری برخاست کیا جانا چاہئے۔بطور احتجاج سول سروس سے استعفیٰ دینے والی ششی کانت سینتھل نےمطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ اس جج کے خلاف ازخودکارروائی کرے اور عدلیہ کو فرقہ وارانہ ایجنڈے کا پلیٹ فارم نہیں بننے دیا جائے اور اس نفرت انگیز تقریر پر روک لگائی جائے۔انہوںنے کہا کہ جج نے خود کو آئین کا محافظ سمجھنے کے بجائے وی ایچ پی کا ترجمان سمجھ لیا ہے،اسلئے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔
سپریم کورٹ کے سابق جج آشیش گوئل نے بھی الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر جسٹس شیکھر کمار یادو کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔انہوں نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ جج کسی خوف اور حمایت کےبغیر آئین کے دفاع کے پابند ہیں،جسٹس شیکھر کا تبصرہ اس حلف کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔اگر آئینی عدالتوں کے جج کھلے عام ہندو قوم پرستی اور سیاست کی اس طرح سے کھل کر حمایت کریں گے تو آئین و قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والی اقلیتیں کس طرح سےہندوستانی عدلیہ پر کیسے بھروسہ کریں گی؟ عدالتیں آر ایس ایس کی شاخیں بن گئی ہیں اور جج فخریہ طور پر سویم سیوک ہونےکا اظہار کررہے ہیں۔
جسٹس (ر)مارکنڈے کاٹجو نے شیکھر کمار یادو کے بیان کو انتہائی قابل اعتراض، غیر ضروری اور احمقانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں اس طرح کے فرقہ وارانہ ذہنیت والےوہ واحد جج نہیں۔جج جس آئین کا حلف لیتے ہیں وہ آئین اس ملک کو سیکولر قرار دیتا ہے۔انہوںنے کہا کہ ایک جج کیلئے وشو ہندو پریشد کے پروگرام میں شرکت کرنا انتہائی غیر مناسب ہے جو کہ آر ایس ایس کا حصہ اور مسلمانوں کے شدید خلاف ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئرایڈووکیٹ فضیل ایوبی نے جسٹس شیکھر یادو کا تبصرے کو ججوں کیلئے عدالتی گائیڈ لائن کی خلاف ورزی قرار دیا۔انہوںنے کہا کہ سپریم کورٹ کی فل کورٹ نے ۷؍مئی ۱۹۹۷ء کو عدالتی زندگی میںججوں کے طرز عمل پر۱۶؍نکاتی گائیڈ لائن جاری کیاتھا۔اس میں تھا کہ ججوں کوپرائیویٹ اور عوامی طور پرغیر جانبدار ہو نا چاہئے اور انہیں خود کوتنہائی میں رکھنا چائے۔اس کے علاوہ عوامی بحث میں جج کو حصہ نہیں لینا چاہئے۔ سیاسی موضوعات کے علاوہ عدالت میں موجود معاملوں یا آنے والے معاملوں پربھی اظہار رائے نہیں کرنی چاہئے۔انہوںنے جسٹس شیکھر کے تبصرے پر افسوس کا اظہار کیا۔
مدارس کونسل آف انڈیا کےصدر مولانا طارق شمسی کا کہنا ہے کہ مذکورہ جج کا یہ بیان ان کے منصب اور کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ اس قسم کا بیان جو ایک پروگرام میں دیا گیا ہے، ان کی نفرت آمیز اور امتیازی ذہنیت کی عکاسی کر رہا ہے۔ وہ اس ذہنیت کے ساتھ عدالت کی کرسی پر انصاف کے تقاضوں کو کس طرح پورا کریں گے؟ یہ ایک اہم اور بڑا سوال ہے۔ اس پر دانشوران ملک و ملت اور چیف جسٹس کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جب ملک کی عدالتوں کے جج اس ذہنیت کے ساتھ بیان دیں گے تو نفرت کی انتہا کا اندازہ باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔