• Sun, 29 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بابری مسجد کی شہادت کے ملزمین کو بری کرنے کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا مطالبہ

Updated: October 06, 2020, 8:25 AM IST | Agency | New Delhi

نیشنل الائنس آف پیپلز موومنٹ میں شامل سماجی کارکنوں کی سپریم کورٹ سے اس فیصلے کا از خود نوٹس لے کر قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی درخواست

Babri Masjid - Pic : PTI
بابری مسجد ۔ تصویر : پی ٹی آئی

انسانی حقوق اور کسانوں سمیت مختلف سول سوسائٹی تنظیموں کی نمائندگی کرنے والے ایک ممتاز گروہ نےبابری مسجد کی شہادت کے ملزمین کو بری کرنے  کے سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے فیصلے پر صدمے اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔خصوصی عدالت کے فیصلے پر افسوس کااظہار کرتے ہوئے نیشنل الائنس آف پیپلز موومنٹ (این اے پی ایم) نے مطالبہ کیا ہے کہ ا سے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے۔ اس قومی عوامی اتحادنے سپریم کورٹ سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس فیصلے کا از خود نوٹس لے اور قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔مندرجہ ذیل بیان پر میدھا پاٹکر ، ارونا رائے ، ونائک سین ، کویتا سریواستو ، کیلاش مینا ، راجکمار سنہا ، سمر باغچی ، امیتو مترا اور مختلف سماجی کارکنوں کے دستخط ہیں۔
 ’ کلیریون انڈیا ‘ کے مطابق سماجی کارکنوں کے بیان میں کہا گیا ہے کہ۵؍دسمبر ۱۹۹۲ء کو بابری مسجد کے انہدام کے معاملے کے تمام ۳۲؍ ملزمین کو بری کرنے  کے سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے فیصلے پر ’این اے پی ایم ‘حیران  و ششدر ہے۔  اس کیلئے  جو و جوہات سامنے آئی ہیں، وہ یہ ہیں کہ ناقص شواہد کی بنیاد پر سی بی آئی نے ایک کمزور قانونی کارروائی کی قیادت کی ۔اگرچہ لبرہن کمیشن نے اپنی تفصیلی تفتیش (۱۹۹۲ء۔۲۰۰۹ء ) میںآر ایس ایس اور بی جے پی کے جن لیڈروں کی شمولیت کی نشاندہی کی ، ان میں ایل کے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی جیسےلوگ شامل ہیں۔
    ہماری جمہوریت کیلئے یہ واقعتاً افسوسناک کہ اس طرح کی تحریک میں سرگرم افراد اکثر عدالت کے اندر کچھ اور کہتے ہیں اور عدالت کے باہر ٹھیک اس کے برعکس....  اورپھر وہ آزاد رہتے ہیں۔ اس کے بعد۲؍ ہزار ۳۰۰؍صفحات  کے طویل   فیصلے میں کہا جاتا ہے کہ اس معاملےمیں کوئی سرگرم سازش نہیں ہوئی ۔ یہ قانون کی حکمرانی کا مذاق ہے۔ اس فیصلے میں انہدام کی غیرقانونی کارروائی سےمتعلق کچھ نہیں کیا گیا، جیسا کہ سپریم کورٹ نے۹؍ نومبر ۲۰۱۹ء کو اپنے ایودھیا فیصلے میں تسلیم کیا تھا ۔ دوسری طرف دیگر مساجد کو منہدم کرنے کے دعوئوں کی حوصلہ افزائی کی ہے اور اس کو لازمی قرار دیا ہے۔ اس  سےمعاشرے میں انتشار ، نفرت اور تشدد بڑھتا جارہا ہے۔
  اس فیصلے نے سپریم کورٹ کے اس بیان کو غلط قرار دیا ہے کہ بابری مسجد کا انہدام قانون کی خلاف ورزی تھی۔اس کے باوجودیہ ظاہر ہوتا ہے کہ استغاثہ نہ صرف اپنا کام کرنے میں ناکام رہا بلکہ جان بوجھ کر اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کا کام کیا۔  ریکارڈ کے مطابق لبرہن کمیشن کے سامنے اس معاملے کے ملزمین  میں شامل اوما بھارتی نے مسجد کے انہدام میں  اپنا کردار ہونے کی  بات قبول کی تھی۔ عوامی سطح پر اُس وقت کے مناظر اور تحریری  ریکارڈ بھی موجود ہیں ۔جہاں ان کی تقریریں ،  ان کے افعال اور سب کچھ ریکارڈ کیا گیا ہے۔  رام جنم بھومی تحریک کی  قیادت کر  نے والے مسجد کے  انہدام کا جشن منا رہے تھے اور   وہ اس مقام کے قریب ایک اسٹیج پر موجود تھے۔
  ان سب  شواہدکے باوجود  اس فیصلے میں یہ کہتے ہوئے بری کر دیا جاتا ہے کہ بابری مسجد کے انہدام میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اسی بنیاد پر’ این اے پی ایم ‘ نے اپنی اپیل میں کہا ہے کہ وہ سی بی آئی عدالت کے اس فیصلے کی مذمت  کرتا اور مطالبہ کرتا ہے کہ اس کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے۔ہماری  درخواست ہے کہ سپریم کورٹ اس فیصلے کا از خود نوٹس لے اور قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔ بابری مسجد کا انہدام قوم کے سیکولر تانے بانے کیلئے ایک دھچکا اور ایک مجرمانہ فعل تھا۔ ہم گہرے رنج کے ساتھ  یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ رام مندر تشدد، انہدام  اور  ناانصافی کی پشت پر تعمیر کیا جائے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK