۲۰۱۴ء میں ۱۲۰؍ سیٹیں جیتنے والی پارٹی کو ۲۰۱۹ء میں ۱۰۵؍ سیٹیں ملی تھیں، اس بار سروے میں اسے ۹۰؍ سیٹیں دی جا رہی ہیں ، یعنی ہر الیکشن میں ۱۵؍ سیٹوں کا نقصان ہوا ہے
EPAPER
Updated: November 21, 2024, 11:03 PM IST | Mumbai
۲۰۱۴ء میں ۱۲۰؍ سیٹیں جیتنے والی پارٹی کو ۲۰۱۹ء میں ۱۰۵؍ سیٹیں ملی تھیں، اس بار سروے میں اسے ۹۰؍ سیٹیں دی جا رہی ہیں ، یعنی ہر الیکشن میں ۱۵؍ سیٹوں کا نقصان ہوا ہے
انتخابی عمل مکمل ہو چکا ہے اور ٹی وی چینلوں کے اندازے کے مطابق ریاست میں ایک بار پھر مہایوتی کی حکومت بننے جا رہی ہے۔ کم از کم ۱۰؍ میں سے ۶؍ سروے تو یہی کہہ رہے ہیں لیکن اگر ہم ان تمام اندازوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ مہایوتی کی حکومت اتنی مضبوط نہیں ہوگی جتنی الیکشن سے پہلے والی حکومت تھی۔ تمام سروے بی جے پی کو ۹۰؍ سیٹیں دکھا رہے ہیں۔ اگر اسے سچ مان لیں تو معلوم ہوگا کہ بی جے پی ریاست میں ہر الیکشن کے ساتھ مسلسل کمزور ہوتی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ ۲۰۱۴ء میں بی جے پی نے شیوسینا ( غیر منقسم) سے الگ ہو کر تنہا الیکشن لڑا تھا۔ دوسری طرف کانگریس نے بھی این سی پی سے علاحدگی اختیار کرکے اپنے دم پر امیدوار اتارے تھے۔ اس وقت بی جے پی کو ۱۲۰؍ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں،اس نے ۶۰؍ سیٹیں جیتنے والی شیوسینا سے ہاتھ ملا کر حکومت بنائی تھی۔ کہتے ہیں یہ جو ۱۲۰؍ اراکین اسمبلی بی جے پی کی طرف سے منتخب ہو کر اسمبلی پہنچے تھے ان میں سے کم از کم ۳۵؍ امیدوار بی جے پی کو شرد پوار نے فراہم کئے تھے۔ کچھ کانگریس کے بھی تھے۔ بی جے پی کے اپنےپاس ڈھنگ کے امیدوار بھی نہ تھے۔
۲۰۱۹ء کے الیکشن میں بی جے پی اور شیوسینا نے متحد ہو کر الیکشن لڑا تھا۔ دوسری طرف کانگریس اور این سی پی بھی ایک ہو گئی تھیں۔ اس وقت سیاسی تبصروں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلسل شکستوں سے نڈھال کانگریس نے جیت کیلئے زیادہ زور نہیں لگایا تھا۔البتہ شرد پوار نے جم کر مقابلہ کیا تھا۔اس کے باود شیوسینا بی جے پی اتحاد کی سیٹیں ۱۸۰؍ سے کم ہو کرم ۱۶۱؍ پر آگئیں۔ اگر کانگریس نے بھی اتنی ہی طاقت دکھائی ہوتی جتنی این سی پی نے دکھائی تھی تو یہ سیٹیں مزید کم ہو سکتی تھیں۔ ان میں بی جے پی کی سیٹیں ۱۰۵؍ تھیں جو بظاہر سب سے زیادہ تھیں اور وہ ایوان میں سب سے بڑی پارٹی بن گئی تھی۔ لیکن اس کی ۱۵؍ سیٹیں کم ہو گئی تھیں۔ اس بار چونکہ شیوسینا نے بی جے پی کا ساتھ چھوڑ دیا اور کانگریس ، این سی پی سے جا ملی تو وہ حکومت سے محروم رہ گئی۔ البتہ ڈھائی سال بعد اس نے شیوسینا کو توڑ کر اس کے ساتھ حکومت بنالی۔ اس کے بعد این سی پی کو بھی توڑ کر اپنے ساتھ ملالیا۔اب ۲۰۲۴ء میں جبکہ بی جے پی نے آدھی شیوسینا اور آدھی این سی پی کو اپنے ساتھ ملا کر الیکشن لڑا ہے۔
بی جے پی کی سیٹیں سروے میں زیادہ نظر آ رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے سب سے زیادہ امیدوار میدان میں اتارے تھے۔ صرف مہایوتی ہی نہیں بلکہ مہا وکاس اگھاڑی کو ملا کر بھی اتنی سیٹوں پر امیدوار کسی نے نہیں اتارے تھے جتنے بی جے پی نے اتارے لیکن سروے میں اس کی سیٹیں گزشتہ دو الیکشن کے مقابلے میں کم دکھائی دے رہی ہیں۔ ابھی یہ طے نہیں ہے کہ سروے میں نظر آنے والے عدد ۹۰؍ کو بی جے پی سچ مچ چھو پائے گی یا نہیں۔البتہ یہ بات ظاہر ہو گئی ہے کہ ریاست میں بی جے پی اپنی طاقت اور مقبولیت کھو رہی ہے۔ اسے ہر الیکشن میں ۱۵؍ سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں اسے ۱۲۰؍ سیٹیں ملیں جو ۲۰۱۹ء میں کم ہو کر ۱۰۵؍ ہو گئیں اور اب یہ تعداد ۹۰؍ دکھائی دے رہی ہے۔ اس بار ای ڈی یا سی بی آئی کا زور بھی چل نہیں پائے گا کیونکہ مرکزکی مودی حکومت بھی دوسروں کے کندھوں کے سہارے ٹکی ہوئی ہے۔ اس لئے یہ کہنا مشکل ہے بی جے پی حکومت سازی میں کتنا دم خم دکھا پاتی ہے۔