۱۳؍ دسمبر کو الہ آباد ہائی کورٹ میں معاملے کی شنوائی تھی، سڑک چوڑی کرنے کا حوالہ دے کر محکمہ تعمیرات عامہ کی جانب سے یہ کارروائی کی گئی، مسلم حلقوں میں شدید ناراضگی، کارروائی کا مطالبہ۔
EPAPER
Updated: December 11, 2024, 11:47 AM IST | Hamidullah Siddiqui | Lucknow
۱۳؍ دسمبر کو الہ آباد ہائی کورٹ میں معاملے کی شنوائی تھی، سڑک چوڑی کرنے کا حوالہ دے کر محکمہ تعمیرات عامہ کی جانب سے یہ کارروائی کی گئی، مسلم حلقوں میں شدید ناراضگی، کارروائی کا مطالبہ۔
بلڈوزرکارروائی سے متعلق سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے باوجوداُترپردیش میں اس کا اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے۔تازہ معاملے میں فتح پورمیں نوری جامع مسجدکو بلڈوزروں کے ذریعہ شہیدکردیا گیا۔ سڑک چوڑی کرنے کا حوالہ دیکر محکمہ تعمیرات عامہ کی جانب سے یہ کارروائی کی گئی اور کہا گیاکہ غیرقانونی تجاوزات کو ہٹایا گیا ہے۔ موقع پر امن و امان برقرار رکھنے کیلئے ضلع انتظامیہ نے بھاری پولیس فورس تعینات کر رکھی تھی۔ اس کارروائی پرمسلم طبقے بالخصوص علماء و وکلامیں شدید رنج و غم پایا جارہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کارروائی’ پلیسیز آف ورشپ ایکٹ ۱۹۹۱ء ‘ اور سپریم کورٹ کی ہدایات کی خلاف ورزی ہے اورریاست کے امن و امان کیلئے نقصان دہ ہے۔
فتح پورضلع میں میں بہرائچ۔باندہ روڈ ( اسٹیٹ ہائی وے) کو چوڑا کرنے کیلئےمحکمہ پی ڈبلیو ڈی کی جانب سےللولی قصبہ میں واقع نوری جامع مسجد مینجمنٹ کمیٹی کوغیر قانونی تعمیرات کے حوالے سے ۲۴؍ستمبر۲۰۲۴ءکو نوٹس دیا گیا تھا۔ نوٹس کیخلاف مسجد کمیٹی کی جانب سے الہ آبادہائی کورٹ میں عرضی داخل کی گئی تھی جس پر۶؍ دسمبر کو سماعت ہونی تھی مگراس دن سماعت نہ ہو پانے کی وجہ سے اگلی تاریخ ۱۳؍دسمبر مقرر کی گئی تھی۔مقامی افرادکا کہنا ہے کہ یہ مسجد ۱۸۳۹ء میں قائم ہوئی تھی، اس لحاظ سے یہ ۱۸۵؍سال پرانی ہے اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ورثے میں بھی شامل ہے۔ نوری جامع مسجد کمیٹی کے سیکریٹری سید نوری نے بتایا کہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت تھا، اس کے باوجودمسجد کو گرا دیا گیاجو کہ عدالتی ضابطہ کی بھی خلاف ورزی ہے۔مسجد کمیٹی کا کہنا ہے کہ غیر قانونی تجاوزات بتاکرجوحصہ منہدم کیا گیا ہےاس سے پوری مسجد کو نقصان پہنچا ہے۔ کارروائی کے دوران اے ڈی ایم اویناش ترپاٹھی اور اے ایس پی وجے شنکر مشراکے ساتھ مقامی ایس ڈی ایم اور پی ڈبلیو ڈی کے افسران موجودتھے۔ ساتھ ہی بھاری پولیس فورس چپے چپے پر تعینات تھی۔افسران کا کہنا ہے کہ مسجد کے عقبی حصے میں ۱۸؍ فٹ تجاوزات غیرقانونی تھی جسے بلڈوزر چلا کر مسمار کیا گیا ہے۔ اس دوران آسمان پر ڈرون اڑاتے ہوئے تصاویر اور ویڈیوز بھی بنائے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ مسجد سمیت سڑک کے دائیں اور بائیں جانب بنائے گئے مکانات اور دکانوں کے۱۳۴؍مالکان کو تجاوزات ہٹانے کیلئےنوٹس دیئے گئے تھے۔ بعضنے تجاوزات کو ہٹالیا تھا جبکہ بعض نے نہیں ہٹایا تھا۔مسجد کمیٹی اس سلسلے میں ہائی کورٹ کےحکم کا انتظارکررہی تھی۔
سرکاری افسران دلیل دے رہے ہیں کہ مذکوہ معاملے پر ہائی کورٹ سے کوئی حکم امتناع جاری نہیں ہوا تھا، اسلئے کارروائی کے جوازپرانگشت نمائی نہیں کی جانی چاہئے جبکہ اسلامک سینٹر آف انڈیا کے چیئرمین اورمعروف عالم دین مولانا خالدرشید فرنگی محلی نے مذکورہ کارروائی کو ’ پلیسیز آف ورشپ ایکٹ ۱۹۹۱ء ‘ اور سپریم کورٹ کی حالیہ ہدایات کی خلاف ورزی سے تعبیرکیا ہے اوراس طرح کے واقعات کوریاست کے امن و امان کیلئے نقصان دہ قراردیاہے۔ انہوں نے انہدامی کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ جب معاملہ ہائی کورٹ میں زیرغورتھا اور سماعت کی تاریخ بھی مقرر تھی تو افسران کو اتنی جلد بازی دکھانے کی کیا ضرورت تھی ؟ مولانا خالد رشید نے اس معاملے کی جانچ کراکر خاطی افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
وہیں، آل انڈیا مسلم جماعت کے قومی صدر مولانا مفتی شہاب الدین رضوی بریلوی نے پریس کو جاری ایک بیان میں کہا کہ چند فرقہ پرست طاقتوں نے ملک کا ماحول خراب کر دیا ہے۔ کئی مقامات پر مذہبی تنازعات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ تعلیم اور لوگوں کی بنیادی ضروریات پر توجہ دینے کے بجائے مذہبی معاملات پر توجہ دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی مقامات کی تعمیر اور دیکھ بھال کیلئے آئین میں مکمل آزادی دی گئی ہے اور ساتھ ہی سپریم کورٹ نے مذہبی اور دیگر مقامات پر بلڈوزر چلانےسے متعلق واضح گائڈلائنس بھی جاری کی ہیں لیکن حکومت ان تمام چیزوں کو نظر انداز کرکے انصاف اور آئین کے خلاف کام کرنے پر آمادہ ہے۔ہائی کورٹ کے وکیل اور ماہر قانون افضال احمدصدیقی کا کہنا ہے کہ ۱۳؍دسمبرکو ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران معززجج کواس مسئلہ کو سنجیدگی سے لینا چاہئے اورعدالت کے زیرغور معاملہ میں جلدبازی دکھانے والے افسران سےجواب طلب کرنا چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایات پرعمل نہ کرناسرکاری افسران کی آمریت والے رویے کو اجاگر کرتاہے۔