سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ان وقف املاک کی تفصیلات فراہم کی تھیں جن پر متعدد ریاستی حکومتوں کا قبضہ ہے، جے پی سی اسی کا جائزہ لینا چاہتی ہے۔
EPAPER
Updated: December 03, 2024, 1:07 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi
سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ان وقف املاک کی تفصیلات فراہم کی تھیں جن پر متعدد ریاستی حکومتوں کا قبضہ ہے، جے پی سی اسی کا جائزہ لینا چاہتی ہے۔
وقف ترمیمی بل پر تشکیل دی گئی پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی نے ریاستی حکومتوں سے ان وقف املاک کی تفصیلات طلب کی ہیں جن پر انہوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ان وقف املاک کی تفصیلات فراہم کی تھیں جن پر متعدد ریاستی حکومتوں کا قبضہ ہے۔ اب پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی سچرکمیٹی کی رپورٹ کی تصدیق کرنا چاہتی ہے۔ کمیٹی نے وقف ایکٹ کی دفعہ ۴۰؍ کے تحت وقف بورڈز کی ان جائیدادوں کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں جن کے بارے میں وقف بورڈ کا کہنا ہے کہ یہ اس کی جائیدادیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق بی جےپی لیڈر جگدمبیکا پال کی قیادت والی پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی سچر کمیٹی کی اس رپورٹ کا جائزہ لے رہی ہے جس میں قومی راجدھانی دہلی میں وقف کی ۳۱۶؍ املاک، راجستھان میں ۶۰، کرناٹک میں ۴۲، مدھیہ پردیش میں ۵۳، اترپردیش میں ۶۰؍ اور ادیشہ میں وقف کی ۶۰؍ جائیدادوں پر حکومت کے غیر قانونی قبضہ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ کمیٹی نے ان ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سےکہاہےکہ وہ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں بتائی گئی جائیدادوں کے بارے میں تحقیقات کرکے معلومات فراہم کریں۔ ریاستی حکومتوں سے یہ بھی درخواست کی گئی ہے کہ وہ جائیداد کی ملکیت پر وقف بورڈ کے قانونی تنازعات کے بارے میں تفصیلات فراہم کریں۔ سچر کمیٹی کو مختلف ریاستی وقف بورڈوں نے ۰۶-۲۰۰۵ءکے دوران غیر قانونی قبضے کے بارے میں مطلع کیا تھا۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے مختلف ریاستوں سے اقلیتی امور کی مرکزی وزارت کے ذریعہ رپورٹ طلب کی ہے۔ ریاستی حکومتوں سے ان معاملات کی تفصیلات بھی فراہم کرنے کیلئے کہا گیا ہے جہاں ان کی ایجنسیاں وقف بورڈ کے ساتھ کسی بھی جائیداد کی ملکیت یا قبضےسے متعلق قانونی تنازعات میں ملوث ہیں۔ سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ وقف املاک کے بارے میں اس کی فہرست مکمل نہیں ہے۔ خیال رہے کہ اپوزیشن کے سخت مطالبہ کے بعد وقف ترمیمی بل پر غور وخوض کیلئے تشکیل پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کی میعاد میں ۲۰۲۵ء کے بجٹ سیشن کے آخری دن تک توسیع کردی گئی ہے۔ اپوزیشن نے لوک سبھا کے اسپیکر پر زور دیا تھاکہ کمیٹی کی میعاد میں اضافہ کیا جائے۔