Inquilab Logo Happiest Places to Work

۱۳؍ سال کی عمر میں نظربند احمد مناصرہ اسرائیل کی جیل سے۱۰؍ سال بعد رہا

Updated: April 11, 2025, 5:11 PM IST | Tal Aviv

تقریباً ایک دہائی جیل میں گزارنے کے بعد، احمد مناصرہ کو رہا کر دیا گا۔ احمدجن کی عمر اب ۲۳؍ سال ہے، کو صرف۱۳؍ سال کی عمر میں ۱۲؍ اکتوبر۲۰۱۵ء کو اسرائیلی قابض فورسیز نے گرفتار کیا تھا۔

Ahmad Manasra can be seen among Israeli police officers. Photo: INN.
احمدمناصرہ کو اسرائیلی پولیس اہلکاروں کے درمیان دیکھا جاسکتا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

تقریباً ایک دہائی جیل میں گزارنے کے بعد، احمد مناصرہ کو رہا کر دیا گا، جس سے حالیہ فلسطینی تاریخ کے سب سے زیادہ متنازع اور عالمی سطح پر مذمت کئے جانے والے بچوں کی قید کے کیسز میں سے ایک کا اختتام ہو گا۔ احمد، جو اب۲۳؍ سال کے ہیں، کو صرف۱۳؍ سال کی عمر میں ۱۲؍ اکتوبر۲۰۱۵ء کو اسرائیلی قابض فورسیز نے گرفتار کیا تھا۔ احمد مناصرہ۲۲؍ جنوری۲۰۰۲ء کو مقبوضہ یروشلم میں پیدا ہوئے تھے اور گرفتاری کے وقت آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے۔ گرفتاری کے دوران انہیں یہودی آبادکاروں نے تشدد کا نشانہ بنایا، گاڑی سے روند دیا گیا جس سے ان کے سر پر شدید چوٹیں ۔ دنیا بھر میں وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ آبادکار اور فوجی انہیں مرتے دیکھنے کی دعائیں کر رہے تھے جبکہ وہ زمین پر لہو لہان پڑے تھے۔ 
ایک دل دہلا دینے والے واقعے میں، احمد سے اسرائیلی فورسیز نے بغیر کسی وکیل یا والدین کی موجودگی میں تفتیش کی۔ تفتیش کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد اس میں دکھایا گیا کہ احمد کو ذہنی اذیت دی جا رہی ہے، جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں، ذہنی صحت کے ماہرین اور قانونی ماہرین نے سخت ردعمل ظاہر کیا اور انصاف کا مطالبہ کیا۔ اسرائیلی عدالت نے خود تسلیم کیا کہ احمد نے کسی چاقو زنی میں حصہ نہیں لیا، اس کے باوجود انہیں قتل کی کوشش کے الزام میں ۲۰۱۶ء میں ۱۴؍ سال کی عمر میں ۱۲؍ سال قید اورایک لاکھ ۸۰؍ ہزار شیکل جرمانے کی سزا دی گئی۔ بعد میں ان کی سزا کو۹؍ سال ۵؍ ماہ کر دیا گیا۔ 
نقاد اس کیس کو فلسطینی بچوں کو نشانہ بنانے کی ایک واضح مثال قرار دیتے ہیں۔ اسرائیلی قانون کے تحت، اس وقت۱۴؍ سال سے کم عمر بچوں کو فوجداری طور پر ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا تھا، اس لئے حکام نے احمد کی سزا کو اس وقت تک ملتوی کیا جب تک وہ۱۴؍ سال کے نہ ہو جائیں اور بعد میں قانون میں ترمیم کر کے عمر کی حد۱۲؍ سال کر دی، تاکہ فلسطینی بچوں کو قید کرنے کیلئے قانونی بنیاد حاصل کی جا سکے۔ فلسطینی قیدیوں کی سوسائٹی کے مطابق، ۲۰۲۱ء کے آخر سے احمد کو مکمل تنہائی میں رکھا گیا، حالانکہ طبی رپورٹیں ان کی خراب ذہنی صحت کی نشاندہی کرتی رہیں۔ ان کی ذہنی حالت میں گراوٹ۲۰۲۰ء کے آخر تک واضح ہو چکی تھی، لیکن رہائی یا علاج کی تمام اپیلیں نظر انداز کر دی گئیں۔ 
احمد کی گرفتاری۲۰۱۵ء میں فلسطینی عوامی تحریک اور جھڑپوں کے دوران عمل میں آئی، جو مقبوضہ یروشلم میں بچوں کی گرفتاریوں کی لہر کا حصہ تھی۔ احمد کے کزن حسن مناصرہ، جن کی عمر۱۵؍ سال تھی، اسی واقعے میں اسرائیلی فورسیز کے ہاتھوں شہید ہو گئے تھے۔ احمد مناصرہ کی کہانی، اسرائیلی قبضے کے تحت فلسطینی بچوں کو نشانہ بنانے کے نظام کی ایک علامت بن چکی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے یروشلم میں بچوں کی بڑی تعداد میں گرفتاریوں، تشدد، رات کی چھاپہ مار کارروائیوں اور ذہنی صدمات کو دستاویزی شکل دی ہے۔ احمد کی رہائی ایک ظلم زدہ باب کے اختتام کی علامت تو ہے، لیکن انسانی حقوق کے علمبردار اس کو انصاف کا لمحہ نہیں مانتے۔ ایک مقامی وکیل کا کہنا تھا کہ یہ کیس کبھی وجود میں ہی نہیں آنا چاہئے تھا۔ احمد کی تکلیف، اس پوری نسل کے درد کی نمائندگی کرتی ہے جو قبضے کے سائے میں پروان چڑھ رہی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK