مہاراشٹر اسمبلی الیکشن کے حیران کن نتائج کے بعد کئی سوالات اٹھائے گئے لیکن الیکشن کمیشن نے ان سوالات کا اب تک کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا ہے۔
EPAPER
Updated: February 05, 2025, 2:13 PM IST | Agency | Mumbai
مہاراشٹر اسمبلی الیکشن کے حیران کن نتائج کے بعد کئی سوالات اٹھائے گئے لیکن الیکشن کمیشن نے ان سوالات کا اب تک کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا ہے۔
مہاراشٹر اسمبلی الیکشن کے حیران کن نتائج کے بعد کئی سوالات اٹھائے گئے لیکن الیکشن کمیشن نے ان سوالات کا اب تک کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا ہے۔ اب اس تعلق سے بامبے ہائی کورٹ میں ایک عرضداشت داخل کی گئی ہے جس کی پیروی ونچت بہوجن اگھاڑی کے سربراہ پرکاش امبیڈکر کر رہے ہیں۔ منگل کو اس معاملے کی سماعت کے بعد عدالت نے الیکشن کمیشن کے نام نوٹس جاری کیا ہے اور ان ۷۶؍ لاکھ ووٹوں کے تعلق سے تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دیا ہے جو عرضی گزار نے مانگے ہیں۔
ونچت بہوجن اگھاڑی کے کارکن چیتن چند ر کانت آہیر نے بامبے ہائی کورٹ میں عرضداشت داخل کی ہے جس میں یہ سوال کیا گیا ہے کہ پولنگ کا وقت( شام ۶؍ بجے) ختم ہونے کے بعد ٹوکن بانٹ کروائی گئی تھی۔ اس دوران پوری ریاست میں ۷۶؍ لاکھ ووٹ ڈالے گئے۔ اتنے کم وقت میں اتنے ووٹ کیسے ڈالے گئے؟ عرضی گزار نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن تعلق سے تفصیل فراہم نہیں کر رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ چیتن آہیر کی پارٹی کے سربراہ ایڈوکیٹ پرکاش امبیڈکر نے خود اس عرضداشت کی پیروی کی۔ عرضداشت کے مطابق ریاست کی کل ۹۰؍ سیٹوں پر اس طرح کی پولنگ ہوئی ہے۔ پرکاش امبیڈکر نے بامبے ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ کے جسٹس اجےایس گڈکری اور جسٹس کمل کاتھا کوبتایا کہ ’’ شام ۶؍ بجے کے بعد ڈالے گئے ووٹ نہ تو طے شدہ وقت میں ڈالے گئے، نہ ووٹوں کی تعداد سے میل کھارہے ہیں اور نہ شام ۶؍ بجے کے بعد ہونے والی ووٹنگ کو ریٹرننگ آفیسرس نے دی گئی ہینڈ بک میں اسے درج کیا ہے یا واضح کیا ہے۔ حتیٰ کہ ووٹوں کے غیر معمولی اضافہ سے متعلق الیکشن کمیشن آف انڈیا کی ہدایات پر عمل بھی نہیں کیا گیا ہے۔ یہی نہیں ۷۶؍ لاکھ ووٹوں سے متعلق پائے جانے والی تضادات کا بھی کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ ‘‘
پرکاش امبیڈکر نے دو رکنی بنچ کو یہ بھی بتایا کہ شام ۶؍ بجے کے بعد ووٹنگ کیلئے رائے دہندگان کو ٹوکن تقسیم کئے گئے تھے جس کی بنا پر لوگوں نے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا لیکن ان ۹۰؍پولنگ سینٹروں کے ریٹرننگ آفیسرس نے نہ تو یہ بتایا کہ ہر انہوں نے اپنے اپنے بوتھ پر کتنے ٹوکن تقسیم کئے، نہ ہی ان کے پاس تقسیم کئے گئے ٹوکنوں کا کوئی ریکارڈ ہے۔ درخواست گزار نے ریٹرننگ آفیسرس کے اس عمل کو فاش غلطی قرار دیا اور الیکشن کے نتائج کو کالعدم قرار دینے اور جیتنے والے امیدواروں سے سرٹیفکیٹ واپس لینے کی اپیل کی۔
پرکاش امبیڈکر نے اس بات پر تشویش اور حیرت کا اظہار کیا کہ ’’ ووٹنگ کا مقررہ وقت ختم ہونے کے بعد نمبر کے اعتبار سے دیئے گئے ٹوکن کے تعلق سے الیکشن کمیشن کے پاس بھی کوئی جواب نہیں ہے اور نہ ہی اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر کوئی اطلاع ہے۔ ان بے ضابطگیوں اور ووٹوں کی تعداد میں پائے جانے والے تضادات کا کوئی ڈیٹا بھی فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ جب الیکشن کمیشن سے اس ضمن معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو ڈیٹا نہ ہونے کا جواز پیش کرکے پلڑا جھاڑ لیا گیا ہے۔ ‘‘
ونچت بہوجن اگھاڑی کے سربراہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے اس جواب اور الیکٹرول آفیسر اور ریٹرننگ آفیسر س کی ان فاش اور تشویش ناک غلطیوں سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعہ ہونے والے انتخابی عمل کی شفافیت پر شک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ عدالت نے ان دلائل کو سننے کے بعد حیرت اور فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے چیف الیکشن کمیشن آف انڈیا، چیف الیکٹرول آفیسر اور متعلقہ ریٹرننگ آفیسرس کو نوٹس جاری کیا جس میں ووٹ دینے کے مقررہ وقت(۶؍ بجے) کے بعد ووٹنگ کیلئے تقسیم کئےگئے ٹوکنوں کی صحیح تعداد، اور اس وقت میں ڈالے گئے ۷۶؍ لاکھ ووٹوں میں پائے جانے والے تضادات کی تفصیلی رپورٹ دو ہفتے میں عدالت کے روبرو پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت کو ملتوی کردیا۔ یاد رہے کہ مختلف سماجی کارکنان اور الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار الیکشن کمیشن سے مذکورہ معاملے میں تفصیلات طلب کر چکے ہیں لیکن کسی کو بھی تسلی بخش جواب نہیں ملا ہے۔ اس نوٹس کے بعد امکان ہے ان تمام کو ان کے سوالات کے جواب مل جائیں۔