دھاراوی واسیوں کے مطابق حکومت کو انتخابات میں ہار کا خوف ہے اس لئے الیکشن سے قبل اڈانی کو حتی الامکان سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں
EPAPER
Updated: September 04, 2024, 9:53 AM IST | Mumbai
دھاراوی واسیوں کے مطابق حکومت کو انتخابات میں ہار کا خوف ہے اس لئے الیکشن سے قبل اڈانی کو حتی الامکان سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں
دھاراوی کی از سر نو تعمیر کے پروجیکٹ میں جگہ پانے کیلئے نااہل پائے گئے جھوپڑا واسیوں کو ’رینٹل ہائوسنگ‘ کے تحت دیگر جگہ پر گھر اور دکان فراہم کرنے کے نام پر مرکزی کابینہ نے ۲۵۶؍ ایکڑ سالٹ پین کی زمین ’دھاراوی ری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ پرائیویٹ لمیٹڈ‘ کو دینے کی منظوری دے دی ہے۔ تاہم دھاراوی کے مکینوں کا ماننا ہے کہ حکومت کو آئندہ الیکشن میں ہارنے کا خوف ہے جس کی وجہ سے انتخابات سے قبل اڈانی کمپنی کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
دھاراوی میں رہائش پذیر آصف شیخ نے انقلاب سے گفتگو کے دوران کہا کہ ’’ابھی تک ان کا سروے مکمل نہیں ہوا ہے اور اس سے پہلے ہی ’ڈی آر ڈی پی پی ایل‘ کے سربراہ نے اعلان کردیا ہے کہ ساڑھے ۷؍ لاکھ گھر اور دکانوں کے مالکان نا اہل پائے جائیں گے اور ان کی بازآباد کاری کیلئے ۵۵۰؍ ایکڑ زمین کی ضرورت پیش آئے گی۔‘‘ انہوں نے سوال کیا کہ ’’اس پروجیکٹ کیلئے اب تک کوئی پلان ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ انہیں کافی زیادہ ایف ایس آئی دی جارہی ہے اس کے باوجود انہیں بازآباد کاری کیلئے زمین کم کیسے پڑ رہی ہے؟‘‘
آصف شیخ نے مزید کہا کہ ’’یہ سب زمین ہڑپنے کا طریقہ ہے۔ یہ سب کھیل ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ البتہ عوام بھی اپنی جگہ پر ڈٹی ہوئی ہے۔‘‘
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ممبر اور دھاراوی بچائو آندولن میں شامل کامریڈ ملند راناڈے نے حکومت کے ذریعہ دھاراوی پروجیکٹ کیلئے نمک کی کھیتی کیلئے استعمال کی جانے والی ۲۵۶؍ ایکڑ زمین دینے کے فیصلہ پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ متذکرہ زمین اس لئے دی جارہی ہے کہ یہاں سروے میں جو لوگ اس پروجیکٹ میں جگہ پانے کیلئے نااہل پائے گئے ہیں انہیں اس زمین پر کرایے کی جگہ پر رکھا جاسکے۔ لیکن اس سے قبل سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ سروے کون کررہا ہے اور کسے یہ سروے قبول ہے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ ’مہاڈا‘ یا ’ایم ایم آر ڈی اے‘ جیسا کوئی سرکاری ادارہ یہ سروے نہیں کررہا بلکہ اڈانی کمپنی کے ہی لوگ یہ سروے کررہے ہیں جبکہ انہیں اس طرح کا سروے کرنے کا اور اس کی بنیاد پر لوگوں کو بازآبادکاری کیلئے اہل یا نا اہل قرار دینے کا اختیار ہی نہیں ہے۔
ملند راناڈے کے مطابق ’’یہ ہم ۲؍ ہمارے ۲؍ کی سرکار ہے۔ ۲۰۱۴ء سے پہلے اڈانی کو کون جانتا تھا؟ یہ اتنے مختصر عرصہ میں دنیا کے امیر ترین افراد میں کیسے شمار ہونے لگا؟ یہ اس لئے کہ اسے حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ مزید یہ کہ دھاراوی ۶۵۰؍ ایکڑ پر بسی ہوئی ہے اور اتنی زمین کے علاوہ ۱۲۵۰؍ ایکڑ مزید زمین اڈانی کو دھاراوی کی بازآباد کاری کے نام پر دی جارہی ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو دھاراوی واسیوں کو بھی ان کی موجودہ ملکیت کے مقابلے ۳؍ گنا بڑھا کر جگہ دی جانی چاہئے۔‘‘