نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار کے بعدمرکزی وزیر نتن گڈکری ، رکن پارلیمنٹ اشوک چوان اور پنکجا منڈے نے بھی ’’بٹیں گے تو کٹیں گے‘ ‘جیسے نعروں پر اعتراض کیا۔
EPAPER
Updated: November 15, 2024, 11:39 AM IST | Iqbal Ansari | Mumbai
نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار کے بعدمرکزی وزیر نتن گڈکری ، رکن پارلیمنٹ اشوک چوان اور پنکجا منڈے نے بھی ’’بٹیں گے تو کٹیں گے‘ ‘جیسے نعروں پر اعتراض کیا۔
بی جے پی کے لیڈروں کو اب یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ’مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں ’’ووٹ جہاد، بٹیں گے تو کٹیں گے اور ایک ہیں تو سیف ہیں ‘‘ جیسے نعرے لگا کر ووٹر س کو بے وقوف نہیںبنایا جاسکتا اسی لئے این سی پی (اجیت ) کے سربراہ اجیت پوار کی جانب سے ان اشتعال انگیز نعروں پر اعتراض کے بعداب بی جے پی میں بھی ان نعروں کے تعلق سے اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ پارٹی کی مقامی لیڈر شپ نے اپنے اسٹار پرچارکوں کو ان نعروں سے گریز کا مشورہ دیا ہے۔ یہ مشورہ دینے والوں میں بی جے پی کے سینئر لیڈر اور مرکزی وزیر نتن گڈکری، ایم ایل سی پنکجا منڈے اور حال ہی میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنے والے رکن پارلیمنٹ اشوک چوان شامل ہیں۔ واضح رہے کہ ۲۰؍ نومبر کو مہاراشٹر اسمبلی کیلئے ووٹ ڈالے جائیں گے جبکہ۲۳؍ نومبر کو ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان کیاجائےگا۔ اس دوران مہاراشٹر میں انتخابی مہم میں حصہ لیتے ہوئے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے’’ بٹیں گے تو کٹیں گے ‘‘ کا اشتعال انگیز اور ایک کمیونٹی کو نشانہ بنانے والا نعرہ دیا تھا جس پر کافی اعتراض بھی ہوا ۔ ان کے بعد وزیر اعظم مودی نے ایک ریلی کے دوران کہا تھا کہ ’’ایک ہیں تو سیف ہیں‘‘ لیکن ان نعروں سے بی جے پی اور مہا یوتی میں اختلاف سامنے آرہے ہیں۔
اشوک چوان نے کیا کہا
اس نعرے کے بارے میں اشوک چوان نے کہا کہ ’’میں اپنے کام پر یقین رکھتا ہوں۔ مجھے ایسے نعروں کی ضرورت نہیں ہے۔ اگرچہ میں بی جے پی میں ہوں لیکن میں ایک سیکولر ہندو ہوں اور سبھی کو ساتھ لے کر چلنے میں یقین رکھتا ہوں۔ اس طرح کے نعروں کی مہاراشٹر کے تناظر میں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بی جے پی کا نظریہ ہے کہ ہم سب ہندو ہیں لیکن پارٹی سیکولرازم میں یقین رکھتی ہے اور اس پر عمل بھی کرتی ہے۔
پنکجا منڈے کا اعتراض
حال میں مہاراشٹر قانون ساز کونسل کی رکن (ایم ایل سی ) بننے والی بی جے پی کی سینئر لیڈر پنکجا منڈے نے کہا کہ’’ بٹیں گے تو کٹیں گے جیسے نعروں کی مہاراشٹر میں قطعی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں ترقی میں رکاوٹ کے مسائل اٹھائے جانے چاہئیں۔ مہاراشٹر کے عوام اس طرح کے اعلانات یا نعرے نہیں چاہتے۔ انہیں مل جل کر رہنا آتا ہے۔
پنکجا منڈے کے مطابق چونکہ میرا تعلق بی جے پی سے ہے، اس کے باوجود میں ان نعروں کی حمایت نہیں کروں گی۔ یوگی آدتیہ ناتھ جی نے الگ تناظر میں وہ نعرہ لگایا تھا ۔ اس نعرےکا مطلب یہ ہے کہ مودی جی نے بلا تفریق ذات اور مذہب سب کو انصاف دیا ہے، اس لئے ہمیں تقسیم ہوئے بغیر مودی کو ووٹ دینا چاہئے۔ پنکجا منڈے کے مطابق اتفاق سے مودی جی نے ایک ہیں تو سیف ہیں کا اعلان کیا۔ یہ اسی اعلان کا ایک مختلف ورژن ہے۔پنکجا منڈے نے اپنا یہ موقف ایک انگریزی روزنامے کو دیئے گئے انٹرویو میں پیش کیا ۔بٹیں گے تو کٹیں گے اور `ایک ہیں تو سیف ہیں جیسے نعروں کے بارے میں جب نتن گڈکری سے یہ پوچھا گیاکہ اسے مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں استعمال کرنا آپ کو کیسا لگتا ہے؟ توگڈکری نے کہا، انتخابات کے دوران انتخابی مہم چلانے کا ہر ایک کا اپنا طریقہ ہوتا ہے اسی کےتحت یہ نعرے لگائے جاتے ہیںلیکن میں اسے آر ایس ایس کے ذریعے ہندوتوا کی تشریح کےپس منظر میں دیکھتا ہوں جس میں تمام ہندوستانیوں سے ایک ہونے کی اپیل کی گئی ہے۔ اس کا تعلق ہندوستانیت سے ہے۔ اس میں ذات پات، رنگ و نسل اور مذہب کے فرق کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوںمزید کہاکہ حال ہی میں پڑوسی ممالک سے ہمارے لئے خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستانی دہشت گرد ہندوستان آکر حملہ کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش سے درانداز ی کی جاتی ہے۔ ان سب سے بچاؤ کیلئے تمام ہندوستانیوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ شاید اسی مقصد سے یہ نعرہ دیا گیا ہے۔ میں بھی اسے اسی نقطہ نظر سے دیکھتا ہوں۔ اسے اشتعال انگیزی نہ سمجھاجائے کیوں کہ اگر یہ اشتعال انگیزی ہے تو ایسے نعروں کی مہاراشٹر میں تو کوئی جگہ نہیں ہے اور یہاں کے عوام یہ بات اچھی طرح سے سمجھتے ہیں۔ یاد رہے کہ این سی پی(اجیت ) کے سربراہ اورنائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار نے بی جے پی کے ان نعروں کےتعلق سے بیڑ میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’مہاراشٹر شیواجی مہاراج، شاہو مہاراج ، مہاتما پھلے، ڈاکٹر امبیڈکر کی سرزمین ہے۔ دیگر ریاستوں کا مہاراشٹر سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ مہاراشٹر کے لوگوں نے ہمیشہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھا ہے۔ باہر کے لوگ آتے ہیں اور اشتعال انگیزی کرکے چلے جاتے ہیں لیکن مہاراشٹر نے تقسیم کی سیاست کوکبھی قبول نہیں کیا ہے اور یہ بات ہمارے ساتھی بھی اچھی طرح سمجھتے ہوں گے۔ ‘‘