عصر ِ حاضر کی ساری ترقی کے باوجود سچ اور جھوٹ، صحیح اور غلط کی پرکھ ان ایجادات میں نہیں پائی جاتی۔ سوشل میڈیا کی دنیا بھی اسی طرح کی ہے کہ اس میں کیا حقیقت ہے اور کیا فسانہ اس کی کوئی تفریق نہیں ہوتی اور نہ ہی سچ اور جھوٹ کا کوئی معیار ہوتا ہے، اس لئے کوئی بھی پیغام دوسروں تک پہنچانے میں تامل اور تحمل کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم سوشل میڈیا پر صرف اچھے، تحقیق شدہ، مستند، اور نیکی کی دعوت دینے والے میسج ہی دوسروں تک پہنچائیں۔ تصویر : آئی این این
جس دور میں ہم جی رہے ہیں یہ سوشل میڈیا کا دورہے۔ آج کا انسان سوشل میڈیا کا استعمال کتنی کثرت سے کررہا ہے اس کا اندازہ صرف ایک سوشل میڈیا ایپ وہاٹس اپ کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔ اس ایپ پر سالانہ ۱۴؍ ہزار کروڑ میسج بھیجے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی دیگر بے شمار ایپ ہیں جہاں میسج پوسٹ کئےجاسکتے ہیں اور ایک دوسرے سے شیئر کئے جاسکتے ہیں۔ صرف ایک وہاٹس پر پیغامات کی ترسیل کا یہ عالم ہے تو مجموعی طور پر بھیجے جانے والے پیغامات کی تعداد شاید آسمان کے ستاروں سے بھی زیادہ نکلے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر عمر کے لوگوں میں سوشل میڈیا اب ایک عادت بن گیا ہے اور سوشل میڈیا پر ہر قسم کے میسج شیئر کئے جارہے ہیں جن میں تحریریں، تصویریں اور ویڈیو وغیرہ بہت زیادہ عام ہیں۔ ان پیغامات کا موضوع کبھی دینی ہوتا ہے، تو کبھی سائنسی، کبھی سیاسی ہوتا ہے، تو کبھی سماجی اور کبھی بہت ذاتی نوعیت کی پوسٹس ہوتی ہیں۔ غرضیکہ ہر اچھی اور بری اطلاعات ایک دوسرے تک پہنچانا سوشل میڈیا پر عام ہوگیا ہے۔
مولانا عامر عثمانی مرحوم نے کہا تھا:
لذت فروش و روح شکن عصرِ نَو کے پاس
سب کچھ تو ہے مگر دلِ دردآشنا نہیں
دیگر الفاظ میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ عصر ِ حاضر کی ساری ترقی کے باوجود سچ اور جھوٹ، صحیح اور غلط کی پرکھ ان ایجادات میں نہیں پائی جاتی۔ اسی طرح یہ سوشل میڈیا کی دنیا بھی ہے کہ اس میں کیا حقیقت ہے اور کیا فسانہ اس کی کوئی تفریق نہیں ہوتی اور نہ ہی سچ اور جھوٹ کا کوئی معیار ہوتا ہے۔ جس کے دل میں جو آئے اس کو بھیجنے کی اجازت ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اسلام میں پیڑ پودوں کی اہمیت اور ماحولیاتی مسائل کا حل
اسی آزادی کی وجہ سے کئی مرتبہ کوئی غلط بات یا کوئی جھوٹی معلومات بھی دیگر سیکڑوں، ہزاروں اور لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرے میں غلط معلومات کا ایک سیلاب سا آیا ہوا ہے۔ چونکہ انسانی ذہن کسی بھی معلومات کو، جب وہ کم مقدار میں ہوتی ہے تو جانچنے اور پرکھنے کا عادی ہوتا ہے، لیکن جب معلومات کا بہاؤ بہت زیادہ ہو تو انسانی ذہن عام طور پر صحیح اور غلط اور سچ اور جھوٹ کے معیار پر معلومات کو پرکھنے کی عادت ترک کرکے ہر بات کو ہضم کرنے کا عادی ہوجاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب لوگوں میں سچ اور جھوٹ کو پرکھنے کا معیار ہی ختم ہوگیا ہے۔ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ سیاستداں دھڑلے سے جھوٹ پر جھوٹ بولے جارہے ہیں اور عوام میں بہت سے لوگ اب بھی ان ہی کے نام کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سچ اور جھوٹ کی تفریق عوام کے ذہنوں سے مٹ چکی ہے۔
یہ تو ہوا سوشل میڈیا پر جھوٹ کے سیلاب کا سیاسی و سماجی نقصان۔ لیکن ایک چیز جس کو اسلامی نظریے سے دیکھنے کی ضرورت ہے وہ ہے سوشل میڈیا پر شیئر کیا جانے والا میسج اور عذابِ جاریہ کا تصور۔ اس لئےکہ ہم اگر کوئی بھی بات سوشل میڈیا پر جب شیئر کریں گے تو وہ دوسروں تک جائے گی، گویا کہ ہم کوئی صحیح یا غلط بات دوسروں تک پہنچانے والے بنیں گے اور اس کا ثواب یا اس کا عذاب ہم پر پڑے گا۔ لیکن سوشل میڈیا کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح یہاں شیئر کی ہوئی پوسٹ کو بھی روک پانا ہمارے لئے ناممکن ہوتاہے۔ اگر خدانخواستہ ہم نے کوئی غلط بات سوشل میڈیاپر بھیج دی، تو اکثر ایسا ہوگا کہ وہ ایک فرد سے دوسرے فرد تک، اور ایک گروپ سے دوسرے گروپ تک پہنچائی جاتی رہے گی اور یہ سلسلہ لامتناہی ہوگا۔ اب اس کا جو عذاب ہے اس کےتصور سے بھی روح کانپ اٹھتی ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ یہ سلسلہ تا قیامت دراز ہوجائے اور ہمارے دُنیا سے چلے جانے کے بعد بھی قبر اور آخرت میں وبال بن کر ہمارے گلے کا طوق بن جائے۔
مثلاً بسا اوقات بے اصل احادیث بھی دوسروں کو بھیج دی جاتی ہیں، بس اتنا لکھا ہواہونا چاہئے کہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا۔ اب اس بات کی کوئی تحقیق نہیں کی جاتی کہ یہ اللہ کے رسول ﷺ کا کلام ہے بھی یا نہیں۔ اسی طرح بے شمار دیگر لوگوں کے اقوال حضرت علیؓ سے منسوب کردئیے گئے ہیں۔ اب کون تحقیق کرے کہ یہ اقوال واقعی حضرت علیؓ کے ہیں یا کسی اور نے کہے ہیں اور خلیفۂ چہارم کی جانب منسوب کردئیے گئے ہیں۔ اسی طرح ہر شعر کو چاہے وہ کتنا ہی اوٹ پٹانگ کیوں نہ ہو اس کو علامہ اقبالؒ کے نام کے ساتھ شیئر کردیا جاتا ہے۔ اقبالؒ کی شاعری کا معیارکتنا اعلیٰ ہے اس کو جانے بوجھے بغیر ہرشعرکے اخیر میں علامہ کا نام لکھ دیا جاتا ہے جو سراسر ظلم ہے۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں ورنہ ہماراسوشل میڈیا، خاص کر جس کا تعلق اسلامی پیغامات سے ہے، بلا تحقیق ترسیلات کا ایک مرکز بن چکا ہے۔
ہر مسلمان کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ سوشل میڈیا پر جھوٹ بات کو بھیجنا ایسا گناہ ہے جس پر عذابِ جاریہ کے تصور کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ ایسا جھوٹ ہے جس کو ہم شروع تو کرسکتے ہیں لیکن کبھی ختم نہیں کرپائینگے۔ کیونکہ عذابِ جاریہ کے دیگر بھی بہت سارے تصورات ہیں لیکن ان کو ختم کرنا انسان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ مثلاً کسی نے شراب خانہ کھول دیا۔ اب جتنے لوگ وہاں شراب پئیں گے ان کو بھی وبال ہوگا اور اس گناہ کا وبال شراب خانہ بنانےوالے پر ہو گا۔ لیکن ایک دن اس شخص کے دل میں ایمان کا احساس جاگا اور اس نے شراب خانہ بندکر دیا تو اب یہ عذابِ جاریہ بھی بند ہوگیا۔ لیکن سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ دنیا میں کہاں کہاں جائے گی، کس کس کے پاس جائے گی، اور کب تک جاتی رہے گی ہم نہیں جانتے اور نہ ہی اس معاملے میں کبھی کچھ تدارک کرسکتے ہیں۔
اس موقع پر ہمیں ہمارے نبی حضرت محمدﷺ کا یہ فرمان یادرکھنے کی ضرورت ہے:’’جس نے کسی ہدایت کی طرف بُلایا، اسے اس کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور اس سے پیروی کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے کسی گمراہی کی طرف بلایا اُس کے اوپر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ (کا بوجھ) ہوگا اور اس سے ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ ‘‘ (صحیح مسلم)
لہٰذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم سوشل میڈیا پر صرف اچھے، تحقیق شدہ، مستند، اور نیکی کی دعوت دینے والے میسج ہی دوسروں تک پہنچائیں اور جس میسج کے بارے میں تحقیق نہ کی ہو، یا ہمیں شک ہو کہ آیا یہ صحیح ہوسکتا ہے یا نہیں اس کو آگے کسی اور کو بھیجنے سے مکمل گریز کریں۔ ہمارا یہ معاملہ صرف دینی اور اسلامی نہیں بلکہ ہر قسم کے معلوماتی پیغامات کے متعلق ہونا چاہئے۔ جیسا کہ کہاجاتا ہےکہ ’’احتیاط علاج سے بہتر ہے‘‘ بس اسی طرح ہمیں سوشل میڈیا پر کوئی بھی میسج بھیجنے سے پہلے احتیاط کی ضرورت ہے اس لئے کہ اگر وہ غلط ہوا تو یہ وہ روگ ہے جس کا علاج کسی سے بھی ممکن نہیں ہے۔