Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

سہ لسانی فارمولے پر ’ڈی ایم کے‘ کا شدید احتجاج، اراکین سیاہ لباس میں ایوان پہنچے

Updated: March 12, 2025, 11:28 AM IST | Agency | New Delhi

شور اور ہنگامے کے درمیان منی پور میں صدر راج کی منظوری پر بحث، لوک سبھا میںامیگریشن اور غیر ملکی بل پیش، اپوزیشن نے پرانی پنشن کی بھی مانگ کی، دونوںایوان کی کارروائی کئی بارملتوی۔

Along with DMK, members of Congress and other parties are also seen wearing black. Photo: INN
’ڈی ایم کے ‘کے ساتھ ہی کانگریس اور دیگر پارٹیوں کے اراکین بھی سیاہ لباس میں نظر آرہے ہیں۔ تصویر: آئی این این

 پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بجٹ سیشن کے دوسرے مرحلے کے دوسرے دن بھی اپوزیشن نے زبردست احتجاج کیا۔ ووٹر کارڈ تنازع اور انتخابات میں بدعنوانی کے الزامات کے ساتھ ہی نئی تعلیمی پالیسی، سہ لسانی فارمولہ، نئی حد بندی اورپرانی پنشن جیسے کئی معاملات اپوزیشن کی جانب سے اُٹھائے گئے۔ ایک دن قبل وزیرتعلیم دھرمیندر پردھان کا بیان بھی موضوع بحث رہا۔ اس پر اپنااعتراض اور احتجاج درج کرانے کیلئے ’ڈی ایم کے‘ کے اراکین سیاہ لباس میں ایوان پہنچے اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔ انہیں ہنگامہ آرائیوں کے درمیان حکومت کی جانب سے کئی بل اور تجاویز پیش کئے گئے جن میں منی پور میں صدر راج کی منظور ی پر بحث بھی تھی۔ 
  منگل کی صبح راجیہ سبھا میں ڈپٹی چیئرمین ہری ونش نے ایوان میں دستاویزات پیش کئے جانے کے بعد کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ضابطہ۲۶۷؍ کے تحت تحریک التواء کے۲۱؍ نوٹس موصول ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوٹس جعلی ای پی آئی سی نمبر، حد بندی کے عمل پر تشویش اور مرکز سے تمل ناڈو کے حصہ کی ادائیگی جیسے امور پر بات کرنے کیلئے جاری کئے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ضابطہ۲۶۷؍ کے حوالے سے پہلے بھی کئی بار پروویژن کیا جا چکا ہے۔ چیئرمین نے۸؍ دسمبر۲۰۲۲ء کو اس سلسلے میں تفصیلی انتظامات کئے تھے اور اس کے بعد کئی مواقع پر اس کا اعادہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اراکین کے نوٹس اس نظام کے مطابق نہیں تھے، اسلئے قبول نہیں کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ممبران کسی اور ضابطے کے تحت بات کر سکتے ہیں۔ 
 اس کے بعد انہوں نے ہنگامے کے درمیان وقفہ صفر شروع کر دیا جس کے جواب میں اپوزیشن اراکین نے نشست کے قریب آکر احتجاج شروع کردیا۔ ہری ونش نے اراکین سے اپیل کی کہ وہ اپنی نشستوں پر چلے جائیں اور کارروائی کو چلنے دیں لیکن وہ اپنے مطالبے پر ڈٹے رہے۔ اپوزیشن اراکین یہ مطالبہ بھی کر رہے تھے کہ ہمارے لیڈر کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔ ایوان میں صورتحال ہنگامہ خیز ہوتی دیکھ کر ڈپٹی اسپیکر نے۱۱؍ بج کر۲۱؍ منٹ پر کارروائی۱۲؍ بجے تک ملتوی کر دی۔ اس کی وجہ سے وقفہ صفر کی کارروائی مکمل نہیں ہو سکی۔ 
 حد بندیوں کے عمل اور تین زبانوں کے فارمولے کے خلاف احتجاج میں جنوبی ہند کے اراکین پارلیمان منگل کو سیاہ کرتا پہن کر ایوان میں آئے۔ انہوں نے مرکزی حکومت پرمطلق العنانی اور ریاستوں کی خود مختاری کو ختم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کے خلاف زبردست نعرے بازی کی۔ ڈی ایم کے کے آر گری راجن نے حد بندی کے عمل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو تمل ناڈو اور کیرالا جیسی ریاستوں کو لوک سبھا کی نشستوں کا نقصان ہوگا۔ یہ انتہائی تشویشناک اور تمل ناڈو جیسی ریاستوں کے عوام کے حقوق پر حملہ ہے۔ حد بندی کا عمل انصاف پر مبنی نہیں ہے اور تمل ناڈو اسے کسی بھی حالت میں قبول نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی کوئی بھی سیاسی جماعت اس کیلئے تیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی تمام سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ حد بندی کا عمل صرف۱۹۷۱ء کی مردم شماری کی بنیاد پر کیا جائے۔ 
 اسی درمیان منی پورمیں صدر راج کی منظوری کیلئے بحث کی تجویز پیش کی گئی۔ اپوزیشن کی جماعتوں نے اس معاملے پر بھی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے کانگریس کے گورو گوگوئی نےکہا کہ شمال مشرق ایک حساس خطہ ہے اور لوگوں کے جذبات اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ منی پور میں لوگ پچھلے دو سال سے بندوق کی نوک پر زندگی گزار رہے ہیں لیکن حکومت اس پر توجہ نہیں دے رہی ہے۔ اسے منی پور میں امن قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ وزیر اعظم مودی کو منی پور کا دورہ کرنا چاہئے اور وہاں کے لوگوں کے مسائل پر غور کرنا چاہئے اور انہیں جلد از جلد حل کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ 
 وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن اراکین بار بار وزیر اعظم کی توہین کرتے ہیں۔ یہ ایک غلط عمل ہے اور گوگوئی کو اس کیلئے معافی مانگنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے وزیر اعظم کا احترام کیا جانا چاہئے اور یہ سمجھنا چاہئے کہ ان کے ساتھ کسی بھی طرح زیادتی نہیں کی جا سکتی۔ اسپیکر اوم برلا نے متنبہ کیا کہ غیر متعلقہ باتوں پر بات کرنے کے بجائے اراکین کو ضابطے کے مطابق ایوان میں پیش کئے گئے مسائل پر بات کرنی چاہئے اور صرف انہی مسائل پر بات کی جانی چاہئے جو ایوان میں بحث کیلئے پیش کئے جائیں۔ حکومت کی اس طرح کی دخل اندازی پر اپوزیشن جماعتوں نے احتجاج کیا، جس کی وجہ سے ایک مرتبہ پھرایوان نعروں سے گونجنے لگا۔ 
  دریں اثنا اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کے بیچ حکومت نے امیگریشن اینڈ فارنرز بل۲۰۲۵ء لوک سبھا میں پیش کردیا۔ اپوزیشن نے اس بل کو حساس اور غیر ملکیوں کیلئے انتہائی سخت دفعات کا حامل قرار دیا۔ کانگریس کے منیش تیواری نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ سنگین مسائل سے متعلق اس بل کو یا تو واپس لیا جائے یا اسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیا جائے۔ 
 وقفہ صفر کے درمیان سماج وادی پارٹی کے دھرمیندر یادو نے لوک سبھا میں مرکزی ملازمین کی پنشن کا مسئلہ اٹھایا اور کہا کہ ملازمین نہ تو قومی پنشن اسکیم سے مطمئن ہیں، نہ ہی یکم اپریل سے نافذ ہونے والی یونیفائیڈ پنشن اسکیم ہی انہیں پسند ہے، اسلئے پرانی پنشن اسکیم کو نافذ کیا جانا چاہئے۔ 
کھرگے کے بیان پر بی جے پی تلملائی، معافی کا مطالبہ کیا
 منگل کو راجیہ سبھا میں کانگریس سربراہ ملکارجن کھرگے کے بیان پر زبردست ہنگامہ ہوا۔ دراصل دگ وجے سنگھ کو اپنی بات رکھنے کیلئے کہا گیا تو اُس وقت کھرگے کھڑے ہو گئے۔ اس پر ڈپٹی چیئرمین ہری ونش نے انہیں روک دیا۔ اس پر کھرگے نے کہا کہ یہ آمریت ہے۔ اس کے بعد ہری ونش نے کہا کہ آپ صبح بات کر چکے ہیں۔ اب بات کرنے کی باری دگ وجے سنگھ کی ہے، اسلئے آپ بیٹھ جائیں۔ اس پر کھرگے نے کہاکہ’’ وہ تو بولیں گے ہی، لیکن آپ کو کیا کیا ٹھوکنا ہے، ہم ٹھیک سے ٹھوکیں گے۔ سرکار کو بھی ٹھوکیں گے۔ ‘‘
 ڈپٹی چیئرمین نے اس پر اعتراض کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم سرکار کی پالیسیوں پر ضرب لگانے کی بات کر رہے ہیں۔ کھرگے کے بیان پر حکمراں طبقے نے سخت اعتراض کیا۔ جے پی نڈا نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے صدر نشیں کیلئے اس طرح کی زبان قابل قبول نہیں ہے، انہیں معافی مانگنی چاہئے۔ بعد ازاں کھرگے نے کہا کہ میں نے صدر نشیں کیلئے نہیں بلکہ حکومت کیلئے ان الفاظ کا استعمال کیا، پھر بھی اگر میری بات سے صدر نشیں کو تکلیف پہنچی ہے تو میں معافی مانگتا ہوں لیکن سرکار سے معافی نہیں مانگوں گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK