سنگھ پریوار میں موہن بھاگوت کے بعد دوسری پوزیشن رکھنے والے جنرل سیکریٹری دتاتریہ ہوسبولے کے اس بیان کے بعد کہ ’راہل گاندھی آر ایس ایس کے لیڈروں سے نہیں ملتے ہیں‘ قیاس آرائیوں کا بازار گرم، کانگریس فی الحال خاموش
EPAPER
Updated: November 02, 2024, 12:36 AM IST | New Delhi
سنگھ پریوار میں موہن بھاگوت کے بعد دوسری پوزیشن رکھنے والے جنرل سیکریٹری دتاتریہ ہوسبولے کے اس بیان کے بعد کہ ’راہل گاندھی آر ایس ایس کے لیڈروں سے نہیں ملتے ہیں‘ قیاس آرائیوں کا بازار گرم، کانگریس فی الحال خاموش
گزشتہ دنوں آرایس ایس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے یہ بیان دے کر کہ ہم تو سب سے ملناچاہتے ہیں لیکن راہل گاندھی ہم سے نہیں ملنا چاہتے، قیاس آرائیوں کا بازار گرم کردیا ہے۔ سیاسی گلیاروں میں اس پر خوب بحث ہورہی ہے کہ کیا سنگھ پریوار راہل گاندھی کو اپنی کسی تقریب میں مدعو کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس طرح کا بیان دے کر وہ عوامی رد عمل دیکھنا چاہ رہا ہے۔ فی الحال اس بیان پر کانگریس نے پوری طرح سے خاموشی اختیارکررکھی ہے۔ اس بیان کے بعدطرح طرح کے سوال اٹھ رہے ہیں۔ جیسے یہ کہ آر ایس ایس کے لیڈران راہل گاندھی سے کیوں ملنا چاہتے ہیں؟ یا پھر یہ کہ کیا سنگھ لیڈروں نے راہل گاندھی سے ملاقات کیلئے وقت مانگا تھا اور راہل گاندھی کی ٹیم نے وقت دینے سے انکار کر دیا؟ کیا خط لکھ کر ان سے رابطہ کرنے کی کوئی کوشش کی گئی ہے؟ آخر کس بنیاد پر یہ بات کہی گئی ہے کہ راہل گاندھی آر ایس ایس کے لیڈروں سے نہیں ملنا چاہتے؟
خیال رہے کہ آر ایس ایس میں موہن بھاگوت کے بعد دوسری پوزیشن رکھنے والےسنگھ کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسبولے نےگزشتہ دنوں یوپی کے شہر متھر ا میں آر ایس ایس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر کہا تھا کہ’نفرت کے بازار میںمحبت کی دکان‘ کھولنے کا دعویٰ کرنے کے باوجود راہل گاندھی آر ایس ایس کے لیڈروں سے نہیں ملتے ہیں۔ انہوں نے براہ راست راہل گاندھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آپ نفرت کے بازار میں محبت کی دکان چلانا چاہتے ہیں، لیکن ملنا نہیں چاہتے جبکہ ہم سب سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘اسی کے ساتھ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سچائی یہ ہے کہ محبت کا پیغام تو آر ایس ایس پھیلا رہی ہے، راہل گاندھی محض بیان بازی کررہے ہیں۔
آر ایس ایس لیڈر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب راہل گاندھی مسلسل سنگھ پر حملہ آور ہیں۔ گزشتہ ماہ وہ امریکہ دورے پر تھے۔اس موقع پرانہوں نے ٹیکساس میں ایک پروگرام کے دوران کہا تھا کہ ’’ آر ایس ایس کا خیال ہےکہ ہندوستان ’ایک خیال‘ ہے جبکہ ہمارا خیال ہے کہ ہندوستان ’مختلف نظریات‘ کا مجموعہ ہے۔ امریکہ کی طرح، ہم بھی سمجھتے ہیں کہ ہر کسی کو خواب دیکھنے کا حق ہے، ہر کسی کو مقابلے کا موقع ملنا چاہے... آر ایس ایس سے یہی ہماری لڑائی ہے۔‘‘
راہل گاندھی صرف امریکہ میں نہیں بلکہ یہاں ہندوستان میں بھی آ ر ایس ایس کو گھیرتے رہے ہیں۔ اپنی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے بعددوران بھی وہ بی جے پی کے ساتھ ہی آر ایس ایس کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اسی طرح لوک سبھا انتخابات میں بھی انہوں نے بار بار آرایس ایس کا نام لیا ہے۔ وہ بی جے پی اور آر ایس ایس پر سرکاری کام میں مداخلت کا الزام بھی لگاتے رہے ہیں۔ اگست میں ’لیٹرل انٹری‘ کے موضوع پر راہل گاندھی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ نریندر مودی یونین پبلک سروس کمیشن کے بجائے آرایس ایس کے ذریعے سرکاری ملازمین کی بھرتی کر کے آئین پر حملہ کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ کانگریس لیڈر نے گزشتہ سال جنوری میں پنجاب کے ہوشیار پور میں کہا تھا ’’میں کبھی بھی آر ایس ایس کے دفتر نہیں جا سکتا، خواہ آپ میرا گلا ہی کیوں نہ کاٹ دیں۔‘‘یہ بیان انہوں نے ورون گاندھی کی کانگریس میں شمولیت کےموضوع پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ انہوں نے آر ایس ایس کے نظریات کو قبول کرلیا ہے،اسلئے ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے آگے انہوں نے یہ بیان دیا تھا۔