• Wed, 05 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

امریکہ میں ٹرمپ اور یاہو کی ملاقات، قطر میں گفتگو کی تیاری

Updated: February 05, 2025, 1:23 PM IST | Agency | Gaza/Washington

صہیونی وزیراعظم سے ملاقات سے قبل امریکی صدر کااسرائیل نوازی کا مظاہرہ، مغربی کنارہ کو یہودی ریاست میں ضم کرنے پر ذو معنی بیان دیا، جنگ بندی پر بھی شبہ پیدا کیا۔

Israeli Prime Minister Netanyahu after arriving in America. Photo: INN
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو امریکہ پہنچنے کے بعد۔ تصویر: آئی این این

ایک طرف جہاں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نومنتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے ملنے کیلئے واشنگٹن میں مقیم ہیں اور وہیں دوسری جانب جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کیلئے دوحہ میں بات چیت کی تیاریاں مکمل ہوگئی ہیں۔ تل ابیب  نے دوحہ مذاکرات کیلئے اپنی ٹیم کا اعلان ٹرمپ کے ساتھ نیتن یاہو کی ملاقات کے بعد کرنے کافیصلہ کیا ہے۔ دوسری طرف ٹرمپ نے نیتن یاہو سے ملاقات سے قبل بھر پور اسرائیل نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک طرف جہاں  غزہ میں جنگ بندی کے مستقبل کے تعلق سے شبہات پیدا کئے وہیں مغربی کنارہ کو اسرائیل میں ضم کرنے سے متعلق ایک سوال پر بھی ذو معنی جواب دے کر بند لفظوں میں  تل ابیب کی  تائید کردی۔ 
غزہ خالی کرانے کی تجویز کا اعادہ
 منگل کو نیتن یاہو اور ٹرمپ کی ملاقات سے قبل وہائٹ ہاؤس سے جاری کئے گئےایک بیان میں کہاگیا ہے کہ صدر جلد از جلد یرغمالوں کی رہائی چاہتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی بیان میں  غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کی متنازع تجویز بھی دہرائی گئی۔ ٹرمپ انتظامیہ   کےسینئر اہلکاروں نے صدر کی تجویز کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ غزہ میں فلسطینیوں  کو رکھنا ’’غیر انسانی‘‘ ہے۔  نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے امریکی انتظامیہ کے سینئر اہلکار نے کہا کہ ’’صدر ٹرمپ غزہ کو ایک ایسا مقام تصور کرتے ہیں جہاں شدید انہدامی کارروائی ہوئی ہے۔ان کی نظر میں ۳ ؍ سے ۵؍ برسوں میں اس کی تعمیر نو نہیں  ہوسکتی۔ اُن کے حساب سے اس میں  ۱۰؍ سے ۱۵؍ سال لگیں  گے اورایسے میں ناقابل رہائش علاقے میں جہاں کئی اسے بم بھی ہوسکتے ہیں جو پھٹے نہیں ہے،  انسانوں کو رہنے پر مجبور کرنا غیر انسانی ہے۔‘‘
 مغربی کنارہ کے تعلق سے متنازع بیان
منگل کو وہائٹ ہاؤس میں اسرائیلی صدر سے ملاقات سے ایک روز قبل پیر کو میڈیا سے بات چیت کےدوران اس سوال پر کہ کیا مغربی کنارہ کو اسرائیل میں  ضم کیا جاسکتاہے، امریکی صدر نے پہلے تو کہا کہ ’’میں اس تعلق سے کچھ نہیں کہوں گا۔‘‘اس کےبعد انہوں نے کہا کہ ’’ویسے اسرائیل  رقبہ کے لحاظ سے بہت چھوٹا ملک ہے۔‘‘ اپنی میز پررکھی قلم کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ اگر میز مشرق وسطیٰ ہے توقلم اسرائیل ہے۔ا نہوں نے کہا کہ ’’یہ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ بہت بڑا فرق ہے۔‘‘
 حماس دوحہ میں مذاکرات کیلئے تیار
 اُدھر قطر میں  حماس کے سیاسی بیورو کے  ذرائع نے گزشتہ روز کہا کہ تحریک جنگ بندی کے دوسرے مرحلے اور ممکنہ قیدیوں کے تبادلہ کیلئے اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ بات چیت کیلئے تیار ہے۔حماس کے دو مختلف لیڈروں نے گزشتہ روز اس امر کا اظہار کیا ہے کہ فلسطینی  گروپ جنگ بندی معاہدے کے طے شدہ نکات کے مطابق جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کیلئے مذاکرات کیلئے پرعزم ہیں۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے `اے ایف پی کے ساتھ حماس کے دو مختلف رہنماؤں نے الگ الگ اس موضوع پر بات کی ہے۔خیال رہے جنگ بندی معاہدے کے تحت یہ طے کیا گیا تھا کہ جنگ بندی کے ۱۶؍دن بعد اگلے مرحلے کے لیے فریقین اپنے ثالثوں کے توسط سے دوبارہ ملیں گے اور جنگ بندی کے اگلے مرحلے کے لیے طریقہ کار طے کریں گے۔ اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے ثالثوں کے ناموں کا اعلان منگل کو امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی میٹنگ کے بعد کریں گے۔ 
مذاکرات کا آغاز ۳؍ فروری سے ہونا تھا
معاہدے کی اس شق کے تحت پیر کے روز۳؍ فروری سے یہ مذاکرات ہونا تھے۔ تاہم اسرائیل نے ان مذاکرات کیلئے  اپنے وفد کو جانے سے روک دیا ہے۔ حماس کے رہنما نے کہا کہ ’’ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جنگ بندی معاہدہ کرانے والے ثالث ملک اسرائیل کو جنگ بندی میں رکاوٹ پیدا کرنے سے روکیں گے۔‘‘حماس کے دوسرے رہنما نے کہا ` ہم انتظار کر رہے ہیں کہ ہمیں ثالث ملکوں کی طرف سے مذاکرات کے لیے جمع ہونے کی دعوت دی جائے اور ہمارا نمائندہ وفد اس میں شرکت کے لیے جائے۔ 
 جنگ بندی کا پہلا مرحلہ۴۲؍ دنوں پر مشتمل ہے اور اس دوران حماس نے تقریباً۳۳؍ اسرائیلی قیدیوں کو غزہ سے رہا کرنا ہے، جبکہ ان۳۳؍ اسرائیلی قیدیوں کے بدلے میں اسرائیل کو ۱۹۰۰؍فلسطینی اسیران کی رہائی کرنا ہے۔ اسرائیل کے باقی ماندہ قیدیوں کی رہائی جنگ بندی کے دوسرے مرحلے سے متعلق ہے جو جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے کے بعد کی جائے گی۔ تاہم اسرائیلی حکام جنگ بندی کو جاری رکھنے کے بجائے ازسر نو جنگ شروع کرنے کی دھمکیاں زیادہ دے رہے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK