۴؍ سال تک کی قید بھی ہوسکتی ہے مگر جج نے جیل کی سزا نہ سنانے کا اشارہ دیا ہے، تقریب حلف برداری سے قبل مقدمہ کافیصلہ رُسوائی کا سبب، ٹرمپ برہم۔
EPAPER
Updated: January 06, 2025, 9:29 AM IST | Washington
۴؍ سال تک کی قید بھی ہوسکتی ہے مگر جج نے جیل کی سزا نہ سنانے کا اشارہ دیا ہے، تقریب حلف برداری سے قبل مقدمہ کافیصلہ رُسوائی کا سبب، ٹرمپ برہم۔
نومنتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جو ۲۰؍ جنوری کو صدارتی عہدہ کا حلف لیں گے، کو حلف برداری سے قبل ۱۰؍ جنوری کو ’’ہش منی کیس‘‘ میں سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکہ کی تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی صدر کو عہدہ صدارت سنبھالنے سے قبل عدالت کی جانب سے سزا سنائی گئی ہو۔ ٹرمپ کیلئے یہ رُسوائی کا باعث ہے کہ وہ سزا یافتہ مجرم کے طور پر وہائٹ ہاؤس میں داخل ہوں گے۔ عین حلف برداری سے ۱۰؍ روز قبل سزا سنانے کے جج کے فیصلے پر ڈونالڈ ٹرمپ نےبرہمی کااظہار کیا ہے۔ انہوں نے عدالتی فیصلے کو بھی سیاست سے متاثر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ناجائز سیاسی حملہ ہے جو دھاندلی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ ‘‘
حلف برداری سےقبل سزا پر فیصلہ کیوں
جج جوآن مرچن نے۱۸؍صفحات پر مشتمل فیصلے میں نیویارک کی جیوری کی طرف سے ٹرمپ کو دی گئی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے ٹرمپ کے وکلا کی جانب سے سزا منسوخ کرنے کی مختلف درخواستوں کو خارج کر دیا۔ ٹرمپ جوکسی جرم میں سزا پانے والے پہلے سابق امریکی صدر ہیں، کو ۱۰؍ جنوری کو سزا سنائے جانے کے موقع پر ذاتی طور پر یا ورچوئل طور پر عدالت میں پیش ہونا پڑسکتاہے۔ ٹرمپ کے وکلا نے جن بنیادوں پر اس کیس کو خارج کروانے کی کوشش کی ان میں امریکی سپریم کورٹ کا گزشتہ سال کا وہ تاریخی فیصلہ بھی شامل تھا کہ سابق امریکی صدور کو عہدے کے دوران کئے گئے متعدد سرکاری کاموں کیلئے قانونی چارہ جوئی سے استثنیٰ حاصل ہے۔ جج مرچن نے اس دلیل کو مسترد کر دیا لیکن کہا کہ ’’صدر کے طور پر حلف اٹھانے کے بعد ٹرمپ قانونی چارہ جوئی سے مستثنیٰ ہوں گے۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’سزا سنانے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے البتہ صدر کا حلف لے لینے کے بعد مدعا علیہ کو ممکنہ طور پر صدارتی استثنیٰ حاصل ہو جائے گا اس لئے ضروری ہے کہ یہ عدالت۲۰؍ جنوری۲۰۲۵ء سے قبل اس معاملے پر سزا کا تعین کرے۔ ‘‘
حلف برداری کی تقریب پر اثرپڑنے کا امکان نہیں
۷۸؍ سالہ ٹرمپ کو ممکنہ طور پر ۴؍سال قید کی سزا ہو سکتی تھی لیکن جج جوآن مرچن نے سزا سنانے کیلئے ۱۰؍ جنوری کی تاریخ طے کرتے ہوئے ہی یہ واضح کردیاتھا کہ ’’عدالت کا جھکاؤ قید کی سزا دینے کی طرف نہیں ہے۔ ‘‘قانونی ماہرین نومبر کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی جیت سے قبل ہی یہ توقع ظاہر کی تھی کہ جج جوآن مرچن سابق صدر کو جیل نہیں بھیجیں گے۔ اس مقدمہ میں ۴؍ سال قید کی سزا کے علاوہ جرمانہ یا پروبیشن یعنی مشروط ضمانت کی سزا ہوسکتی ہے۔ جج کےیہ اشارہ دے دینے کے بعد کہ وہ ملزم یعنی ڈونالڈ ٹرمپ کو غیر مشروط ضمانت دیدیں گے، اس فیصلے کا حلف برداری کی تقریب پرکوئی اثر پڑنے کا امکان نہیں ہے۔ البتہ ٹرمپ پر ’’سزا یافتہ‘‘ کا لیبل لگارہے گا۔ اس با ت کا امکان ہے کہ ٹرمپ کی ٹیم ۱۰؍جنوری کو سزا کا تعین ہوتے ہی اعلیٰ عدالت میں فیصلے کو چیلنج کردیگی۔
ڈونالڈ ٹرمپ الزامات کو بے بنیاد قراردیا
دوسری طرف نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے انےکے عہدہ سنبھالنے سے قبل ہش منی ٹرائل میں سزا سنانے کی تاریخ طے کرنے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’ناجائز سیاسی حملہ‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم’’ٹروتھ‘‘ پر لکھا ہےکہ’ ’یہ ناجائز سیاسی حملہ ایک دھاندلی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ‘‘ ٹرمپ کے ترجمان سٹیون چونگ نے جج جوآن مرچن کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے’’سپریم کورٹ کے استثنیٰ کے فیصلے اور دیگر قانونی اصولوں کی براہ راست خلاف ورزی‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ غیر قانونی مقدمہ کبھی دائر ہی نہیں کیا جانا چاہیے تھا اور آئین کا تقاضا ہے کہ اسے فوری طور پر ختم کیا جائے۔ ‘‘ٹرمپ پر الزام ہے کہ جب امریکی صدر بننے سے قبل ۶۰؍سال کی عمر میں ایک گولف ٹورنامنٹ کے دوران ان کی ملاقات ۲۷؍ سال کی ایک اداکارہ سے ہوئی جسے وہ اپنے ہوٹل لے گئے۔ الزام ہے کہ انہوں نے اسے ٹی وی شو میں کام دلانے کا وعدہ کرکے جنسی استحصال کیا۔ بعد میں جب انہوں نے امریکہ کا صدارتی الیکشن لڑا تو اس معاملے کو دبانے کیلئے مذکورہ اداکارہ کو تقریناً ایک کروڑ روپے بطور ’’ہش منی‘‘دیئے۔