علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی کے حالات زندگی پر بنائی گئی سیریز کو نشر نہ کرنے کے فیصلہ پر علیگ برادری میںبرہمی ، پرسار بھارتی پر شدید تنقیدیں
EPAPER
Updated: February 22, 2025, 1:25 PM IST | saeed Ahmed Khan and Shahab Ansari | Mumbai
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی کے حالات زندگی پر بنائی گئی سیریز کو نشر نہ کرنے کے فیصلہ پر علیگ برادری میںبرہمی ، پرسار بھارتی پر شدید تنقیدیں
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان کے حالات زندگی پر بنائی گئی سوانحی سیریز’سر سید احمدخان ،دی مسیحا‘ کو دوردرشن نے پرسار بھارتی او ٹی ٹی پر نشر کرنے سے انکار کردیا ہے۔ قابل ذکر ہےکہ اس سیریز کو بین الاقوامی سطح پر او ٹی ٹی پلیٹ فارم کے ذریعہ ریلیز کیا گیا ہے جس کی کافی ستائش ہو رہی ہے تاہم دوردرشن نے مسلم اور اردو مخالف ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریری طورپر اس کو نشر کرنے سے انکار کردیا۔ اس سیریز کے پروڈیوسر اور مرکزی کردار شعیب چودھری نے اس پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
پروپیگنڈہ فلم کو موقع لیکن اسے نہیں
سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ جب پرسار بھارتی کے او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر’ دی کشمیر فائلز‘ اور ’کیرالا اسٹوری‘ جیسی پروپیگنڈہ فلم چلائی جاسکتی ہیں تو ’سرسید احمد خان: دی مسیحا‘ کو نشر کرنے میں کیا مسئلہ ہوسکتا ہے۔یہ مسلم دشمنی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی اہم شخصیات سے نفرت کے اظہار کا معاملہ ہے۔یہ حیران کن ہےکہ ایک معروف اصلاح پسند اور ماہر تعلیم سرسید پر بنائی گئی بایو پک نیشنل پبلک براڈ کاسٹنگ کے او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر نشر ہونے کیلئے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ممبئی کے ڈارک ہارس پروڈکشن کو اپنے خط میں، پرسار بھارتی کے پروگرام ایگزیکٹیو نے لکھا ہے کہ ’’مجھے آپ کو مطلع کرنے کی ہدایت دی گئی ہے کہ سر سید احمد خان کی زندگی پر بنائی گئی سیریز کو نشرکرنے کی تجویز پرسار بھارتی او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر ریوینیو شیئرنگ موڈ کے تحت ممکن نہیں ہے۔‘‘
فلم کو اے ایم یو کیمپس میں ریلیز کیا گیا
خیال رہے کہ اے ایم یو کی وائس چانسلر نعیمہ خاتون نے حال ہی میں کیمپس میں بہت دھوم دھام سے اس فلم کو ریلیزکیا ہے ۔ سرسید کی سوانح حیات ’حیات جاوید‘ پر مبنی اس سیریز میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے قیام کے لئے سرسید کی جدوجہد اور مسلمانوں میں سائنسی سوچ کو فروغ دینے کیلئے ان کی کوششوں کو دکھایا گیا ہے۔
فلم کے پروڈیوسر برہم
فلم کے پروڈیوسر شعیب چودھری اس وقت بیرون ملک(ترکی) میں ہیں ۔ انہوں نے فون پر انقلاب سے بات چیت کرتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا کہ فلم دور درشن پر نہیں چلائی گئی۔ ان کے مطابق اگر دکھائی جاتی تو اس کا پیغام مزید عام ہوتا، حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ دور درشن پر نہ دکھائے جانے سے فلم کہیں دکھائی ہی نہیں گئی۔اس وقت دنیا کے الگ الگ ملکوں میں ۱۰۰؍ سے زائد پلیٹ فارم پر یہ فلم دکھائی جارہی ہے۔ انہوں نے اس فلم کے تعلق سے یہ بھی کہا کہ میری دانست میں یہ ایسی پہلی فلم ہوگی جو سرسید خان کے حوالے سے ان کی زندگی اور ان کی علی گڑھ کے تعلق سے کی گئی کامیاب کوششوں کا احاطہ کرتی ہے۔
اردو دشمنی کا الزام
شعیب چودھری نے فلم نہ دکھائے جانے کی وجوہات کے طور پر کہا کہ اردو دشمنی کے سوا اور کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اردو کے خلاف بیان بازی کی اور کھل کر نفرت کا اظہار کیا اور ٹھیک اسی وقت اس فلم کو روک دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ انہوں نے دوسری وجہ یہ بتائی کہ فلم مکمل اردو زبان میں ہے اور اسکرین پر جو کردار نمایاں کئے جاتے ہیں اور رول ادا کرنے والوں کے نام بھی اردو میں لکھے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ویسے مجھے اس فیصلے سے شدید تکلیف اس لئے پہنچی ہے کیونکہ سرسید خان نے اس ملک کو بہت کچھ دیا ہے۔‘‘
سابق طلبہ کا کیا کہنا ہے ؟
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طالب علم اور ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ کے سابق ایگزیکٹیو آفیسر آشیش ماتھر نے نمائندہ انقلاب سے کہا کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کچھ لوگوں کو آخر کیا ہوگیا ہے، میں نے یہ فلم نہیں دیکھی ہے لیکن آخر سرسید پر اعتراض یا ان کی بایو گرافی نہ دکھانے کا کیا مقصد ہے؟ سرسید نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں کسی ایک قوم کو نہیں پورے ملک کو بہت کچھ دیا ہے۔انہوں نے یونیورسٹی میں اپنے دور طالب علمی کو یادکیا اور کہا کہ اس گہوارہ علمی نے مجھے بہت کچھ دیا بلکہ میں یہ کہوں کہ اس نے مجھے شناخت دی اور آج جو کچھ بھی میں ہوں وہ علی گڑھ کے سبب ہی ہے۔
آشیش ماتھر نے یہ بھی کہا کہ پانچ سال میں نے علی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی لیکن اس دوران نہ تو کوئی بھید بھاؤ دیکھا اور نہ کوئی تفریق دیکھی، ہرشعبے میں بھرپور مواقع ملے۔ جو باصلاحیت تھے ان کی وہاںپذیرائی ہوتی تھی اور انہیں آگے بڑھنے کے بھرپور مواقع ملتے تھے۔ یہ سلسلہ آج بھی برقرار ہے۔
اے ایم یو کے سابق طالب علم اور صابو صدیق انجینئرنگ کالج کے پروفیسر ذاکر الٰہی نے کہا کہ ایسی باتیں سن کر دکھ ہوتا ہے۔ سرسید کی زندگی یا ان کی شخصیت میں منفی کیا ہوسکتا ہے؟ سرسید نے بالخصوص مسلمانوں کو اور بالعموم پورے ملک کو بہت کچھ دیا ہے۔ اگر یہ فلم دکھائی جاتی تو میں سمجھتا ہوں کہ لوگ استفادہ کرتے اور اس محسن کی زندگی اور جدوجہد سے کچھ حاصل کرتے لیکن تنگ نظری کو کیا کہئے۔
ماہر معاشیات اور رضوی انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ کے پرنسپل ڈاکٹر شارق نثار علیگ نے دور درشن او ٹی ٹی کے ذریعہ سرسید احمد خان کی زندگی پر بنی فلم نشر کرنے سے انکار پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’خبروں کے مطابق دور درشن پر اس فلم کو نہ دکھانے کی وجہ آمدنی سے جوڑی گئی ہے لیکن دور درشن کبھی مالی منافع کیلئے بنا ہی نہیں تھا۔ یہ سرکاری چینل ہے اور جو چیزیں قومی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں انہیں وہ ہمیشہ سے دکھاتے آئے ہیں پھر چاہے اس میں منافع ہو یا نہ ہو۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’آج کے وقت میں کتنے لوگ دور درشن دیکھتے ہوں گے؟ لیکن سرکاری چینل ہونے کی وجہ سے اس کی اپنی اہمیت ہے۔ جو او ٹی ٹی پلیٹ فارم منافع کماتے ہیں وہ اس فلم کو دکھا رہے ہیں لیکن ڈی ڈی جو کبھی مالی منافع کیلئے بنا ہی نہیں تھا وہ آمدنی کے نام پر فلم کو دکھانے سے منع کررہا ہے۔ حیرت ہے !
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں پریکٹس کرنے والے تجربہ کار وکیل صغیر خان علیگ نے کہا کہ ’’یہ حکومت ہر وہ کام کرے گی جس سے مسلمان پریشان ہوں۔ ان کا جو فرقہ وارانہ ایجنڈا ہے اس فلم کو نہ دکھانا بھی ان میں سے ایک ہے۔ حالانکہ اس فلم کو دکھانے یا نہ دکھانے سے کسی کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، نہ اس کو دکھانے سے کسی کو روزگار مل جاتا اور نہ ہی منع کرنےسے کسی کا کوئی نقصان ہو رہا ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کو ذہنی طور پر پریشان کرنے اور یہ احساس دلانے کا طریقہ ہے کہ آپ یہاں دوسرے درجہ کے شہری ہیں یہاں آپ کو برابری کا حق حاصل نہیں ہے۔‘‘