Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’جب تک ہندوتواوادی سماجی نظام موجود ہے، اچھوتوں کے ساتھ امتیازی سلوک بھی موجود رہے گا‘‘

Updated: April 15, 2025, 12:31 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ڈاکٹر بی آر امبیڈکر تحریک آزادی کے ایک ایسے ہیرو ہیں جنہوں نے نہ صرف انگریزوں کی غلامی کے خلاف جنگ لڑی بلکہ ہندوستانی سماج میں گہری چھائی ہوئی غلامی، اچھوت اور امتیازی سلوک کے خلاف بھی پوری زندگی لڑتے رہے۔

Dr. Dr Bhimrao Ambedkar. Photo: INN
ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر۔ تصویر: آئی این این

ڈاکٹر بی آر امبیڈکر تحریک آزادی کے ایک ایسے ہیرو ہیں جنہوں نے نہ صرف انگریزوں کی غلامی کے خلاف جنگ لڑی بلکہ ہندوستانی سماج میں گہری چھائی ہوئی غلامی، اچھوت اور امتیازی سلوک کے خلاف بھی پوری زندگی لڑتے رہے۔ سماجی مسائل پر اُن کے زیادہ تر مضامین آج بھی اتنے ہی متعلق ہیں جیسے کہ وہ آجکے ہندوستان کیلئے لکھے گئے ہوں۔ ان کے ایک مضمون بعنوان’’ بھید بھاؤ کا مسئلہ‘‘ کے بعض اقتباسات ملاحظہ کریں۔ 

وطن عزیز میں اچھوتوں کو جن سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان میں انسانی حیثیت کے حصول کے مسئلے کے بعد دوسرا مسئلہ امتیازی سلوک کا ہے۔ اچھوتوں کے ساتھ ہندوؤں کے ذریعہ کس حد تک امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، اس کے نتائج کا تصور کرنا بھی کسی غیر ملکی کیلئے ناممکن ہے۔ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جہاں اچھوت اور ہندو ایک دوسرے کا مقابلہ نہ کرتے ہوں اور جس میں اچھوتوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جاتا ہو۔ یہ امتیازی سلوک انتہائی تکلیف دہ انداز میں ہوتا ہے۔ 
  سماجی تعلقات جیسے تفریح، کھانے پینے، کھیل کود اور پوجا پاٹھ کے معاملات میں یہ پابندیوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اس کی وجہ سے، آسان سے آسان معاملوں میں بھی حصہ لینے پر روک لگ جاتی ہے۔ عوامی سہولیات کے میدان میں یہ امتیاز اچھوتوں کو اسکولوں، کنوؤں، مندروں اور ٹرانسپورٹ کے ذرائع کے استعمال سے محروم کر دیتا ہے۔ عوامی انتظامیہ اچھوتوں کے ساتھ امتیازی سلوک سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ اس نے عدالتوں، سرکاری محکموں، کوآپریٹیو بینکوں اور خاص طور پر پولیس محکمے کو متاثرکیاہے۔ زمین، قرض اور نوکریوں کے حصول کے معاملےمیں یہ واضح طور پرنظر آتا ہے۔ یہی وہ شعبہ ہے جہاں سب سے زیادہ ملازمتیں ہیں۔ 
 اگرچہ یہ کسی ضابطے اور اصول کے تحت نہیں ہے البتہ کچھ ایسے ’قبول شدہ‘ قواعد ضرور موجود ہیں جو ملازمتوں میں اچھوتوں کے داخلے اور ترقی کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اچھوت کو اکثر داخلے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ان کیلئے تمام محکمے بند ہیں۔ یہاں تک کہ ٹیکسٹائل ملوں میں بُنائی کے شعبے اور مسلح افواج کی تمام شاخیں اچھوتوں کیلئے بند ہیں۔ اگر اسے داخلہ مل بھی جائے تووہاں پہلے سے طے شدہ ایک سطح ہوتی ہے جس سے آگے اچھوت نہیں بڑھ سکتا، خواہ وہ کتنا ہی ہنر مند یا سینئر کیوں نہ ہو۔ عام طور پر اس اصول پر عمل کیا جاتا ہے کہ اچھوتوں کو ہندوؤں پر کوئی انتظامی اختیار نہیں دیا جانا چاہئے۔ 
 نتیجہ یہ ہے کہ جب تک پوری شاخ اچھوتوں کے حوالے نہیں کی جاتی، اس کے نتیجے میں بہت کم اسامیاں ہوں گی جن میں اچھوت بھرے جا سکیں گے۔ اس کی ایک ٹھوس مثال پیش کی جائے تو روزگار کا صرف ایک ہی شعبہ ایسا ہے جہاں اچھوتوں کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا اور اسے مقابلہ آرائی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، اور وہ ہے صفائی کا کام۔ اس میدان میں مقابلے کی ضرورت نہیں کیونکہ تمام عہدے اچھوتوں کیلئے ہیں اور اس میدان میں ہندوؤں اور ان کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں ہے لیکن یہاں بھی اعلیٰ آسامیوں کو بھرنے میں امتیاز برتا جاتا ہے۔ تمام گندے کام اچھوت کرتے ہیں، لیکن ان کی نگرانی کیلئے جو عہدے تخلیق کئے گئے ہیں، جن میں زیادہ تنخواہیں ہوتی ہیں اور جن کا گندگی کے کام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، ہندوؤں کے ذریعہ پر کیاجاتا ہے۔ 
 اس صورتحال میں شہریت کے حق کا مطلب اچھوتوں کے حقوق سے نہیں ہوتا۔ عوام کی حکومت اور عوام کیلئے حکومت کا مطلب اچھوتوں کیلئے حکومت نہیں ہے۔ سب کیلئے مساوی مواقع کا مطلب اچھوتوں کیلئے مساوی مواقع نہیں ہیں یعنی مساوی حقوق کا مطلب اچھوتوں کیلئے مساوی حقوق نہیں ہیں۔ ملک کے کونے کونے میں اچھوتوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، امتیازی سلوک برداشت کرنا پڑتا ہے، ان کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ وہ ہندوستان کے سب سے دُکھی لوگ ہیں۔ 
 اس میں کتنی سچائی ہے، یہ صرف اچھوت ہی جانتے ہیں، جنہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ امتیازی سلوک اچھوتوں کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ انہیں اس سے باہر نہیں آنے دیتا۔ اس کی وجہ سے وہ ہر وقت کسی نہ کسی سے خوفزدہ رہتے ہیں، بے روزگاری، بدسلوکی اور ایذا رسانی وغیرہ۔ یہ زندگی ان کیلئے ایک طرح سے عدم تحفظ کی ہے۔ 
 امتیازی سلوک کی ایک اور شکل ہے جو کہ اگرچہ بہت بالواسطہ ہے، اس کے باوجود بہت ٹھوس ہے۔ اس کے تحت مستحق اچھوتوں کے وقار اور عزت کو کم کرنے کی منصوبہ بند کوششیں کی جاتی ہیں۔ ایک ہندو لیڈر کو ایک عظیم ہندوستانی لیڈر کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی انہیں کشمیری برہمنوں کا لیڈر نہیں کہتا، حالانکہ وہ کشمیری برہمن ہوتا ہے۔ اگر کوئی لیڈر کسی اچھوت ذات سے تعلق رکھتا ہو تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شخص اچھوتوں کا لیڈر ہے۔ ہندو ڈاکٹر کو ایک عظیم ہندوستانی ڈاکٹر سمجھا جاتا ہے، کوئی بھی اسے آئینگر نہیں کہتا، چاہے وہ آئینگر ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کوئی ڈاکٹر کسی اچھوت ذات سے تعلق رکھتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ فلاں ڈاکٹر کسی اچھوت ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ 
 ہندو گلوکار کے بارے میں کچھ بھی کہتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک عظیم ہندوستانی گلوکار ہیں۔ اگر وہی شخص اچھوت ذات سے تعلق رکھتا ہو تو اسے اچھوت ذات کا گلوکار کہا جاتا ہے۔ ایک ہندو پہلوان کو بیان کرتے وقت اسے ہندوستان کا عظیم پہلوان کہا جاتا ہے۔ اگر وہ اچھوت ذات سے تعلق رکھتا ہے تو اسے اچھوت ذات کا پہلوان قرار دیا جاتا ہے۔ اس قسم کے امتیاز کی جڑ ہندو نظریہ میں ہے کہ اچھوت کمتر ہیں، خواہ وہ کتنے ہی قابل کیوں نہ ہوں۔ ان کے عظیم آدمی صرف اچھوتوں کیلئے ہی عظیم ہیں۔ وہ ان لوگوں سے زیادہ یا برابر نہیں ہو سکتے جو ہندوؤں میں عظیم ہیں۔ اس طرح امتیازی سلوک اگرچہ سماجی ہے لیکن یہ معاشی تفریق سے کم تکلیف دہ نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK