اس سے قبل وہ ’ایم بی بی ایس‘ کے فائنل امتحان میں ۱۰؍ میں سے۹؍ گولڈ میڈل لے کر ’سوراشٹر میڈیکل یونیورسٹی‘ کی ٹاپر بننے کا اعزاز بھی حاصل کرچکی ہیں۔
EPAPER
Updated: April 30, 2025, 2:36 PM IST | Shaikh Akhlaque Ahmed | Mumbai
اس سے قبل وہ ’ایم بی بی ایس‘ کے فائنل امتحان میں ۱۰؍ میں سے۹؍ گولڈ میڈل لے کر ’سوراشٹر میڈیکل یونیورسٹی‘ کی ٹاپر بننے کا اعزاز بھی حاصل کرچکی ہیں۔
ڈاکٹر غزالہ کی تعلیمی سفر کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی کامیابی کا دائرہ بڑھاتی گئی ہیں۔ ’انقلاب‘ سے خصوصی گفتگو کے دوران انہوں نےبتایا کہ۲۰۱۱ء میں دسویں کے امتحان میں انہوں نے ۸۵؍ فیصد مارکس کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے بعد ۲۰۱۳ء میں۱۲؍ویں کا امتحان۸۹؍ فیصدمارکس سےکامیاب کیا۔ گجرات اسٹیٹ میڈیکل انٹرنس امتحان میں کامیابی کے بعدان کا داخلہ ایم بی بی ایس میں ہوا جہاں ہر سال بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئےآخری سال تک انہیں ۱۷؍ گولڈ میڈل حاصل ہوئے۔ سب سے اہم سال ۲۰۱۹ء کا رہا، جب فائنل ایئر میں انہیں ۱۰؍ میںسے ۹؍ گولڈ میڈل ملے اور اپنی یونیورسٹی کی ٹاپر بنیں۔میڈیسن مضمون میں صرف ایک نمبر کم ہونے کی وجہ سے وہ دسویں گولڈ میڈل سے محروم رہ گئی تھیں۔
ایم بی بی ایس مکمل کرنے کے بعد وہ تذبذب کا شکار تھیں کہ پی جی کریں یا سول سروسیز کی تیاری کریں۔ اسی دوران بڑودہ مسلم ڈاکٹر اسوسی ایشن کی جانب سے طلبہ کی رہنمائی کیلئے ایک سیمینار ہوا جہاں پر ڈاکٹر زبیر گوپلانی اور ظفر محمود والا سے تفصیلی گفتگو کے بعد انہوں نے مقابلہ جاتی امتحان میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ اُس وقت تک گجرات میں زکوٰۃ فاؤنڈیشن کاکوئی داخلہ امتحان سینٹر نہیں تھا۔ بعد ازاں زبیر گوپلانی صاحب کی کوششوں سے بڑودہ میں پہلا سینٹر قائم ہوا جس میں ان کا سلیکشن ہوا، اس طرح وہ دہلی چلی گئیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’’میں نے یو پی ایس سی کا پڑھائی کا باقاعدہ آغاز۲۰۱۹ء سے کر دیا تھا لیکن چند مارکس کی کمی کے سبب ۲۰۲۱ء اور ۲۰۲۲ء میں پریلیم امتحان بھی کوالیفائی نہیں کر سکی۔ فکر لاحق ہونا واجبی تھا، ڈاکٹری پڑھنے کے باوجود میں والدین کو فائنانشیل سپورٹ نہیں کر پا رہی تھی۔ اس کے بعد میں نے ریاستی سروسیز میں بھی قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور گجرات پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں شریک ہوئی۔ دہلی کی پڑھائی کا تجربہ کام آیا، اسلئے تینوں مراحل آسانی سے عبور ہوگئے۔ اس کی بنیاد پر مجھے اسٹیٹ ٹیکس افسر کلاس۔۲؍ کی پوسٹ الاٹ ہوئی۔ کلاس امپرومنٹ کیلئے دوسرےسال پھر شریک ہوئی اور ٹریننگ کے دوران سروس میں رہتے ہوئے میں نے کامیابی حاصل کی، جس کی بنیاد پر ریاستی ٹیکس محکمہ میں بطور اسسٹنٹ کمشنر مجھے کلاس وَن افسر کا عہدہ حاصل ہوا اور پھراحمد آباد شہر میں جی ایس ٹی محکمہ میں خدمات انجام دیں۔
انہوںنے بتایا کہ ’’ریاستی خدمات میں افسر ہوجانے کے بعد جو حوصلہ بحال ہوا تو پھر یو پی ایس سی میں بھی آسانی ہوئی۔ اس طرح ایک نئے عزم کے ساتھ میں نے۲۰۲۲ء میں انٹرویو تک پہنچ گئی لیکن بدقسمتی سے چند نمبرات کم ہونے کی وجہ سے میں فائنل لسٹ میں جگہ بنانے میں ناکام رہی۔ انٹرویو تک پہنچنے سے حوصلہ بڑھا۔ بعد ازاں میں نے اپنی کمزوریوں پر کام کیا اور۲۰۲۳ء میں کامیابی حاصل کی۔ اُس وقت میرا رینک ۸۲۵؍ آیا جس کی بنیاد پر مجھے منسٹری آف ڈیفنس میں انڈین ڈیفنس اسٹیٹ سروس کی پوسٹ الاٹ ہوئی۔ میں فی الوقت اسی پوسٹ کے ٹریننگ سیشن سے گزر رہی ہوں۔ دوران تربیت ہی ایک بار پھر ۲۰۲۴ء کے امتحان میں شریک ہوئی اور الحمدللہ ۶۶۰؍ رینک پر کامیاب ہوئی۔ میں ایک بار پھر کلاس امپرومنٹ کی خواہ ہوں۔‘‘
غزالہ کے والد محمد حنیف گھانچی گورنمنٹ اسپتال میں فارماسسٹ کی خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ والدہ نصیبہ گھانچی خاتون خانہ ہیں۔