وشال گڑھ تشدد معاملے میں بامبے ہائیکورٹ میں شاہو واڑی پولیس کا بیان، سینئر پولیس انسپکٹر کو ہائیکورٹ نےحاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔
EPAPER
Updated: July 30, 2024, 11:03 AM IST | Mumbai
وشال گڑھ تشدد معاملے میں بامبے ہائیکورٹ میں شاہو واڑی پولیس کا بیان، سینئر پولیس انسپکٹر کو ہائیکورٹ نےحاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔
وشال گڑھ میں ۱۴؍ جولائی کو ہونیوالے فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے میںشاہوواڑی پولیس نے بامبے ہائی کورٹ میں حلف نامہ جمع کرایا ہے۔مسجد،درگاہ اورمسلمانوں کے خلاف تشددکرنے والے فسادیوں کیخلاف کارروائی میں ناکامی کے متعلق کولہاپور کی مقامی پولیس نے حلف نامہ داخل کرکے بیان دیا کہ واردات کے وقت شدید بارش اور دھند کی وجہ سے شرانگیزوں کیخلاف کارروائی نہیں کی جاسکی۔ اس دوران محکمہ آثار قدیمہ نے عدالت میںکہاکہ وشال گڑھ قلعہ کے اطراف واقع صرف دکانوں کیخلاف کارروائی کی گئی ہے جسے عرضی گزاروں کے وکلاء نے غلط بیانی قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ بامبے ہائی کورٹ کے حکم پر شاہو واڑی پولیس اسٹیشن کے سینئر انسپکٹر وجئے بابا گھیراڈے عدالت میں حاضر ہوئے اور ایک حلف نامہ داخل کیا جس میں کہا گیا ہے کہ واردات والے دن پولیس نے نظم و نسق کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس دن قلعہ میں ایک مذہبی تقریب کا بھی انعقاد کیا گیا تھا جس کی وجہ سے وہاں جانے والے عقیدتمندوں اور فسادیوں کے درمیان فرق کرنا ممکن نہیں تھا۔
جسٹس بی پی قلابہ والا اور جسٹس فردوش فیروز پونی والا پر مشتمل دو رکنی بنچ کے روبرو داخل کئے گئے حلف نامہ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پولیس نے ۱۵۰۰؍ افراد کیخلاف ۵؍ ایف آئی آر درج کی ہیں اور جن کو ملزم بنایا گیا ہے ان میں سابق رکن پارلیمان سمبھاجی راجے چھترپتی بھی شامل ہیں جو شرپسندوں کی قیادت کررہے تھے۔ ایف آئی آر میں دائیں بازو کے دو انتہا پسندوں، رویندر پڈول اور سالنکھے کے نام بھی شامل ہیں۔ عدالت میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ متذکرہ واردات اچانک رونما ہوئی تھی اور اس میں کم از کم ۱۸؍ پولیس اہلکار اور افسران زخمی ہوئے تھے جن میں ایک ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، ۲؍ پولیس انسپکٹر، ۲؍ اسسٹنٹ انسپکٹر اور ۱۲؍ حوالدار شامل ہیں۔
برسات کے دوران انہدامی کارروائی کے تعلق سے ایڈوکیٹ جنرل بیریندر سراف نے دعویٰ کیا کہ عرضی گزاروں نے غلط الزامات عائد کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہری انتظامیہ نے نہیں بلکہ ریاستی پی ڈبلیو ڈی محکمے کی جانب سے انہدامی کارروائی کی گئی۔حالانکہ اے جی کے اس بیان پر عرضی گزاروں کے وکلاء ستیش تلیکر اور مادھوی ایپّن نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ عدالت کو گمراہ کن بیان دیا جارہا ہے۔ اس بیان پر سرکاری وکیل نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ جن مکانات کو عدالت نے تحفظ فراہم کیا ہے ان میں سے کسی کو نہیں توڑا گیا ہے۔ البتہ جن ڈھانچوں کو منہدم کیا گیا ان میں کچھ ایسی بھی دکانیں تھیں جو رہائش اور تجارت کیلئے ایک ساتھ استعمال کی جارہی تھیں اور ایسی تعمیرات کو برسات میں توڑنے پر کوئی ممانعت نہیں۔ اس تعلق سے بھی عرضی گزاروں کے وکلاء کا کہنا تھا کہ بارش میں کسی بھی قسم کے ڈھانچے کو منہدم نہیں کیا جاسکتا۔ اس بیان پر ججوں نے عرضی گزاروں کے وکلاء اور ایڈوکیٹ جنرل دونوں کو حلف نامہ داخل کرکے منہدم کردہ ڈھانچوں کی تفصیلات دینے کو کہا ہے کہ ان میں کوئی رہائش کیلئے استعمال کیا جا رہا تھا یا نہیں۔ یاد رہے کہ وشال گڑھ کے ۳؍ مکینوں نے ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کرکے مطالبہ کیا ہے کہ ۱۴؍ جولائی کو فرقہ وارانہ تشدد میں اقلیتوں کے ساتھ جو دہشت گردی کی گئی اس کی تفتیش ہائی کورٹ کے کسی سبکدوش جج کی سربراہی میں ایس آئی ٹی سے کرائی جائے کیونکہ انہیں پولیس پر یقین نہیں ہے۔ انہوں نے پولیس پر فسادیوں کیخلاف کارروائی نہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔