یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کووڈ۱۹؍ کے پہلے کیس کو رپورٹ ہوئے پانچ سال ہو چکے ہیں۔اس رپورٹ پر اسی ہفتے امریکی کانگریس میں ووٹنگ ہوگی۔
EPAPER
Updated: December 04, 2024, 2:23 PM IST | Agency | Washington
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کووڈ۱۹؍ کے پہلے کیس کو رپورٹ ہوئے پانچ سال ہو چکے ہیں۔اس رپورٹ پر اسی ہفتے امریکی کانگریس میں ووٹنگ ہوگی۔
کووڈ۱۹؍ وباء اور اسکے اثرات کے متعلق امریکی کانگریس کمیٹی کی تحقیقات دو سال بعد مکمل ہو گئی ہیں۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ وائرس(سارس کووٹو وائرس) چین کے شہر ووہان کی ایک لیباریٹری سے لیٖک ہوا تھا۔ اسے گین آف فنکشن نامی تحقیق کے ذریعے بنایا گیا تھا۔ اس تحقیق میں وائرس کو مزید خطرناک بنایا جاتا ہے تاکہ اس سےبچاؤ کے طریقے تلاش کئے جا سکیں۔ ۵۲۰؍ صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں ماسک پہننے اور سماجی دوری جیسے ضابطوں پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ رپورٹس کے مطابق ۲۰۱۹ء کے آخر میں ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی کے کچھ محققین کووڈ جیسی علامات والی بیماری میں مبتلا تھے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب وائرس کے پھیلاؤ کے بارے میں کوئی سرکاری اطلاع نہیں تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ `اگر یہ وائرس قدرتی طور پر پھیلتا تو اس کے شواہد اب تک مل چکے ہوتے۔ اس میں ووہان کی گوشت مارکیٹ سے وائرس پھیلنے کے دعوے کو بھی مسترد کر دیا گیا ہے۔ تاہم اس مسئلے پر سائنسدانوں اور تنظیموں کی رائے منقسم ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور بہت سے سائنس دان وائرس کے قدرتی پھیلاؤ پر اصرار کرتے ہیں۔ لیکن۲۰۲۲ء میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ میں لیب سے وائرس کے لیک ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔
تحقیقاتی رپورٹ میں امریکی امیونولوجسٹ ڈاکٹر انتھونی فاوسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ فاوسی پر لیب لیک تھیوری کو دبانے کی کوشش کرنے کا الزام ہے۔ ڈاکٹر فاوسی نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے جون میں پینل کے سامنے کہا تھا کہ ووہان کی لیب میں زیر مطالعہ وائرس سارس کوو۲؍ نہیں بن سکتا۔ فاوسی نے کہا تھا کہ سوشل ڈسٹنسنگ یا معاشرتی دوری کے ابتدائی اصول یوں ہی بنائے گئے تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکی قومی ادارہ صحت نے ووہان لیب کے گین آف فنکشن ریسرچ کے لیے مالی اعانت فراہم کی تھی۔ اس مسئلے نے امریکہ میں سائنسی تحقیق کی نگرانی کے حوالے سے ایک بڑی بحث کو جنم دیا ہے۔ رپورٹ میں کووڈ وبا سے نمٹنے کے لیے اپنائے گئے بہت سے اقدامات پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ کہا گیا کہ ماسک پہننا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں غیر موثر ہے اورلاک ڈاؤن کی وجہ سے پیدا ہونیوالی معاشی اور ذہنی پریشانیاں اس سے بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئیں۔ سماجی دوری کے ۶؍ فٹ کے اصول کو بھی سائنسی طور پر بے بنیادقرار دیا گیا۔ تاہم رپورٹ میں آپریشن وارپ اسپیڈ کی تعریف کی گئی ہے۔ یہ ٹرمپ انتظامیہ کا ایک اقدام تھا، جس میں ویکسین تیزی سے تیار کی گئی۔ رپورٹ میں اسکول بند کرنے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ اس سے بچوں کی تعلیم اور دماغی صحت پر طویل مدتی اثر پڑے گا۔ اس رپورٹ نے وبائی مرض سے نمٹنے کے حوالے سے پہلے سے جاری سیاسی تنازع کو مزید بڑھا دیا ہے۔ جہاں ڈیموکریٹس نے ان اقدامات کو ضروری قرار دیا وہیں ریپبلکنز نے انہیں غلط فیصلوں کا نتیجہ قرار دیا۔ تحقیقاتی کمیٹی کے چیئرمین بریڈ وینسٹرپ کا کہنا تھا کہ’’اس کام کا مقصد اگلی وبا کو روکنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ایسی صورت حال پیدا ہونے کی صورت میں ملک تیار ہے۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ایمانداری اور شفافیت ضروری ہے۔ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کووڈ۱۹؍ کے پہلے کیس رپورٹ ہوئے پانچ سال ہو چکے ہیں۔ اس رپورٹ پر اس ہفتے ووٹنگ ہوگی۔