سال بھر میں امریکہ کی جانب سے ۱۷ء۹؍ بلین ڈالر کی ریکارڈ فوجی مدد کے باوجود تل ابیب کو شدید معاشی بحران کا سامنا۔
EPAPER
Updated: October 08, 2024, 1:50 PM IST | Agency | Gaza
سال بھر میں امریکہ کی جانب سے ۱۷ء۹؍ بلین ڈالر کی ریکارڈ فوجی مدد کے باوجود تل ابیب کو شدید معاشی بحران کا سامنا۔
۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو شروع ہونےوالی غزہ جنگ میں اسرائیل نے بھلے ہی بزعم خود بڑی کامیابیاں حاصل کرلی ہوں مگر زمینی سطح پر جہاں وہ معاشی طور پر تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے وہیں عالمی سطح پر اس کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ دوسری طرف فلسطین کیلئے بین الاقوامیحمایت میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیاگیاہے۔ امریکہ سمیت وہ ممالک جو اسرائیل کے اتحادی ہیں، انہیں اپنے عوام کے شدید مظاہروں کا سامنا ہے جبکہ عالمی عدالت نے فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی قرار دیااور انہیں خالی کرنے کا حکم دیا۔ فلسطین کیلئے حمایت میں اضافہ کا اندازہ جنگ کی پہلی برسی پر دنیا بھر میں مظاہروں سے لگایا جا سکتاہے جو اتوار سے ہی شروع ہوگئےتھے۔ (اس کی تفصیل خبر صفحہ ۸؍ پر ملاحظہ کریں۔)
فلسطین عالمی سیاست کا اہم موضوع
عالمی برادری پہلے غزہ اور اب لبنان کے عام شہریوں کے تحفظ میں بری طرح ناکام ہوئی مگر فلسطین عالمی سیاست کا سلگتا ہوا موضوع بن گیا ہے۔ برطانیہ جس کا اسرائیل کے غاصبانہ قیام میں کلیدی رول ہے، کو اس کی فوجی امداد میں تخفیف کرنی پڑی جبکہ امریکہ کے اتحادی فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں نے تل ابیب کو اسلحہ کی فراہمی روکنے کی ضرورت پر زور دیا ہے جس پر اسرائیل بری طرح تلملا گیا ہے۔
اس ضمن میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں متعدد قراردادیں اسرائیل کے خلاف منظورکی گئیں جبکہ سلامتی کونسل میں امریکی ویٹو کی وجہ سے کوئی قرارداد بھلے ہی منظور نہ ہوپائی ہو مگر اسرائیل کی حمایت میں امریکہ الگ تھلگ ضرور پڑ گیا۔
پوری دنیا میں عوام اٹھ کھڑے ہوئے
اکتوبر ۲۰۲۳ء کےبعد سے دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ امریکہ جو اسرائیل کی پشت پناہی میں سب سے آگے ہے، کے شہر واشنگٹن ڈی سی میں نومبر۲۰۲۳ء میں اس کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج اسرائیل کے خلاف ہوا جس میں ۵؍ لاکھ افراد نے شرکت کی ۔برطانیہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف ہر ہفتے مارچ کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ لندن میں ۲۱؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو ہونے والے احتجاج نے پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا جس میں ایک لاکھ افراد نے شرکت کی ۔ مشرق وسطیٰ اور مسلم ممالک میں تو احتجاج فطری ہے مگر ٹوکیو، سڈنی، ویانا (آسٹریا)،برلن، پیرس، منیلا اور کیپ ٹاؤن جیسے شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے۔
امریکہ میں یونیورسٹیوں کے طلبہ بھی اپریل اور مئی میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ کیمپس کے ان مظاہروں نے امریکی انتظامیہ کو ہلاکر رکھ دیا۔ ایسے مظاہرے برطانیہ اور آسٹریلیاسمیت کئی ممالک کی یونیورسٹیوں میں بھی پھیل گئے تھے۔ طلبہ کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ ان کے تعلیمی ادارے اسرائیل کے ساتھ ہر طرح کے تعلق اورتعاون کو ختم کریں۔ امریکہ کی ۱۱۷؍ یونیورسٹیوں میں۱۲۱؍ مظاہرے ہوئے جن کے دوران طلبہ نے کیمپس پر قبضہ کرلیا تھا اور تعلیمی و تدریسی سرگرمیاں ٹھپ پڑ گئی تھیں۔ امریکہ اور برطانیہ میں ییل، کولمبیا، آکسفورڈ، کیمبرج، مانچسٹر اور لیڈس یونیورسٹیوں کے طلبہ ان مظاہروں میں پیش پیش رہے۔ امریکہ میں طلبہ کے ان مظاہروں کو ختم کرنے کیلئے پولیس کو طاقت کا استعمال کرنا پڑا۔
اسرائیل کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی
غزہ پر حملوں کی وجہ سے اسرائیل کی ساکھ پوری دنیا میں عوامی سطح پر بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو نے فلسطینیوں پرتل ابیب کے ظلم کے خلاف مئی ۲۰۲۳ء میں سفارتی تعلقات ہی منقطع کرلئے اور راملّہ میں اپنا سفارتخانہ کھولنے کا اعلان کیا۔ اس سے قبل انہوں نے کولمبیا کے فنکاروں سے اپیل کی کہ وہ اپنے فن کے ذریعہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی مذمت کریں۔ فلسطین کے ساتھ یکجہتی کااظہار کرتے ہوئے سب سے بڑا اقدام جنوبی افریقہ کی حکومت نے کیا جس نے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ کیا اور مطالبہ کیا کہ اسے جنگی جرائم کیلئے جوابدہ بنایا جائے۔
اسرائیلی مصنوعات کا موثر بائیکاٹ
۲۰۰۰ء کے انتفاضہ کے بعد سے ہی ان کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا سلسلہ شروع کردیاتھا جو اسرائیل اوراس کی فوج کو مدد کرتی ہیں۔ بائیکاٹ کی اس تحریک کو ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد غیر معمولی تقویت حاصل ہوئی۔ کوکا کولا، پیپسی، میک ڈونالڈ اور اسٹار بکس جیسی کمپنیوں کو دنیا بھر میں اس بائیکاٹ کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسٹاربکس نےکاروبار میں کمی کی وجہ سے مئی ۲۰۲۳ء میں اپنی سالانہ فروخت اور منافع کا تخمینہ گھٹا دیا۔
اسرائیل کی معیشت تباہی کی طرف گامزن
غزہ میں عام شہریوں، بچوں اور خواتین کے قتل عام میں امریکہ برابر کا ذمہ دار ہے جس نے ۷؍ اکتوبر کے بعد سے تل ابیب کو ۱۷ء۹؍ بلین ڈالر کی خطیر مدد صرف فوجی امداد کے طور پر کی ہے۔ اس کے بعد بھی اسرائیل کی معیشت تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جس آئیرن ڈوم نظام کے ذریعہ اسرائیل ناقابل تسخیر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جنگ کے دوران اس پر آنے والا خرچ اسرائیل کے قومی خزانہ پر زبردست بوجھ ڈال رہا ہے۔ اسرائیل کا مالی خسارہ ۸؍ فیصد سے زائد ہوچکاہے۔ ریٹنگ ایجنسیوں نے اس کی شرح نمو ۲۰۲۴ء میں صفر رہنے کی پیش گوئی کی ہے جبکہ آئندہ سال ۲۰۲۵ء میں جنگ بند ہونے کی صورت میں ۲ء۲؍ کی شرح نمو کی پیش گوئی کی ہے جو اس کی معمول کی شرح نمو کے نصف سے بھی کم ہے۔
اس دوران `حماس کے سیاسی بیورو کے رکن خلیل عبدالحئی نے کہا ہے کہ جب تک فلسطینی عوام اپنے تمام حقوق حاصل نہیں کر لیتے علاقے میں امن اور استحکام ناممکن ہے۔ خلیل عبد الحئی نے اپنے بیان میں اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ میں بُرائی اور تباہی و بربادی کا گڑھ قراردیا۔