• Wed, 25 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’ہندوستان کی عدلیہ اکثریت نواز ہوگئی ہے‘‘

Updated: January 29, 2024, 10:47 AM IST | Agency | New Delhi

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل دشینت دَوے کا اظہار فکرمندی، کئی حوالے بھی دیئے۔

Dushyant Dave. Photo: INN
دشینت دَوے۔ تصویر : آئی این این

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل دشینت دوے نے ملک کی عدلیہ کی بگڑتی ہوئی شبیہ پر فکرمندی کااظہار کیا ہے۔ انہوں نےعدالتوں کے طرز عمل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہندوستان کی عدلیہ اکثریت نواز ہوگئی ہے۔‘‘ عدالتوں کی خبر نگاری کرنے والی ویب سائٹ ’لائیو لاء‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے نشاندہی کی کہ حکومت کی جانب سے آئین اور قانون کی خلاف ورزیو ں پر ملک کی عدلیہ اکثرخاموشی اختیار کرلیتی ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ’’آپ کو ایک بات سمجھنی ہوگی کہ سپریم کورٹ سمیت ملک کی تمام عدالتیں اکثریت نواز ہوگئی ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ معاشرہ میں ہونے والی برائیوں پر حقیقی ضرب لگانے میں ناکام ہیں۔‘‘ انہوں نے کئی مثالیں بھی دیں۔ 
 صفحہ اول سے آگے...
 دُشینت دَوے نے بطور خاص نشاندہی کی کہ عدالتوں  نے ملک میں ’’بلڈوزر انصاف‘‘ کے نئے رجحان کو نہیں  روکا جس میں فرقہ وارانہ فساد کے بعد ملزم بنائے گئے(اقلیتی فرقے کے) افراد کے گھر ڈھا دیئے جاتے ہیں۔
دشینت دوے  سپریم کورٹ کی بار اسوسی ایشن کے سابق صدررہ چکے ہیں اور اس سے پہلے بھی کئی بار عدالتوں پر اپنی برہمی کااظہار کرچکے ہیں۔ انہوں  نے سوال کیا کہ ’’کیا سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کو نظر نہیں آتا؟ کیا وہ اس وقت نابینا ہوجاتے ہیں جب پولیس گھر،دکانیں اور تجارتی مراکز  کے خلاف بلڈوزروں کا استعمال کرتی ہے؟‘‘ انہوں  نے کہا کہ ’’عدلیہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ میں عدالتوں  کےاحترام کو برقرار رکھتے ہوئے کھل کر کہنا چاہتا ہوں کہ عدلیہ دہرے معیار کا مظاہرہ کررہی ہے۔ آپ(عدلیہ) کو اپنے آپ کو منوانا ہوگا۔ آپ کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ قانون کی حکمرانی  مذہب، سماجی مرتبہ اور ذات پات کے امتیاز کے بغیر  سب پر یکساں ہو۔‘‘ 
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل جو عدالتی نظام پر بلا لاگ لپیٹ بولنے کیلئے جانے جاتے ہیں، نےمتنبہ کیا کہ ’’اگر عدلیہ ایسا نہیں کر پا رہی ہے تو آپ روزانہ کی بنیاد پر عاملہ (حکومت) کے آگے ہتھیار ڈال رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں حکومت کا حوصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور اس کا خمیازہ عام شہریوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔‘‘ انہوں نے نشاندہی کی کہ جدید ہندوستان کی تاریخ میں  اس وقت کی عدلیہ سب سے کمزور ہے۔ دَوے نے کہا کہ ’’برطانوی راج میں بھی عدلیہ اتنی کمزور نہیں تھی۔ آج جج  حقوق انسانی اور شہری حقوق کی خلاف ورزیوں یا آئینی اداروں پر حملوں کا سامنا ہی نہیں کرنا چاہتے۔ جج کچھ نہیں کررہے ہیں۔ کیا عدلیہ ملک میں متحرک جمہوریت کو یقینی بنانے کیلئے ذمہ دار نہیں ہے ؟‘‘ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے  دشینت دوے نے کہا کہ ’’عدلیہ آخری امید تھی مگر میرے حساب اس آخری امید کو خود ججوں نے ختم کردیاہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK