• Mon, 06 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

فرض شناس معلم سبھاش یادو جنہوں نے ۳۳؍سالہ کریئر کےدوران ایک بھی چھٹی نہیں لی

Updated: January 04, 2025, 2:27 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

سبھاش یادو چند روز قبل ہی ساکی ناکہ کی میونسپل ہندی اسکول سے وظیفۂ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے ہیں،طلبہ کی تعلیم کو ہمیشہ ترجیح دینے کی وجہ سے ہردلعزیز رہے۔

Recently retired Subhash Singh Yadav. Photo: INN
حال ہی میں سبکدوش ہوئے سبھاش سنگھ یادو۔ تصویر: آئی این این

آئیے ہم آپ کو ایک ایسے فرض شناس معلم سے ملواتے ہیں جنہوں نے ۳۳؍ سالہ تدریسی خدمات کے دوران ایک بھی چھٹی نہیں لی۔ اسکول اور طلبہ کی پڑھائی سے بے انتہا رغبت رکھنے والے ساکی ناکہ کے ۵۸؍ سالہ فرض شناس معلم سبھاش سنگھ  یادو چند دنوں قبل ہی تدریسی خدمات سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے ہیں۔ ایک بھی چھٹی نہ لینے کی وجہ سے ان کی سیکڑوں ’سی ایل (اتفاقی رخصت)‘ ضائع ہو گئیں جبکہ دیگر چھٹیاں جیسے ای ایل  ان کی ۶۰۰؍ سے زائد باقی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چھٹی لینے کا ایک موقع   ۱۹۹۶ء میں آیا تھا جب ان کی اہلیہ کو ساکہ ناکہ کے اسپتال میں زچگی کے لئے داخل کیا گیا تھا۔ اس وقت ڈاکٹر  نے کہا تھا کہ ان کا اسپتال میں موجود رہنا ضروری ہے لیکن تب بھی انہوں نے اسکول جانے کو ترجیح دی تھی۔   
 اُترپردیش کے ضلع غازی پور کےقصبہ سیت پورسے تعلق رکھنے والے سبھاش سنگھ یادو نے کاندیولی کے رگھوویر ہندی ودیالیہ سے معلمی کاآغاز کیاتھا۔ یہاں ایک سال ملازمت کرنے کے بعدانہیں ۱۹۹۲ء میں مرول ناکہ بی ایم سی ہندی اسکول میں خدمات پیش کرنے کا موقع ملا۔ یہاں انہوںنے متواتر ۲۰؍سال ملازمت کی بعدازیں اندھیری کے میونسپل ہندی اسکول میں ۱۲؍سال تک طلبہ کوپڑھایا ۔ ۳۳؍سال تک معلمی کےفرائض انجام دے کر سبھاش یادو یکم دسمبر ۲۰۲۴ء کو سبکدوش ہوئے ہیں ۔ ان تمام برسوں میں انہوں نے  اسکول سے ایک بھی چھٹی نہیں لی ۔ اس کی وجہ سے ان کی سیکڑوں چھٹیاں ضائع ہو گئیں لیکن انہیں اس کا ملال نہیں ہے کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ ٹیچروں کو سال میں ۲؍ مرتبہ چھٹی مل ہی جاتی ہے اور اس کے علاوہ جو گزیٹیڈ چھٹیاں ہیں وہ بھی ملتی ہیں۔ اس لئے انہیں مزید چھٹیاں لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ 
سبھاش سنگھ کے مطابق میرا تعلق غریب خانوادہ سے رہا ہے۔ ہمارا آبائی پیشہ کلاشتکاری تھا۔ جس وقت میں آٹھویں جماعت میں تھا، کھیت میں گیہوں صاف کرنے کی مشین میں اُنگلیاں آجانے سے دائیں ہاتھ کی ۲؍اُنگلیاں شدید زخمی ہوگئی تھیں۔ علاج کے باوجود دائیں ہاتھ کی اُنگلیوں سے لکھنا ممکن نہ تھا لیکن مجھے پڑھائی کرنے کا جنون تھا، لہٰذا میں نے بائیں ہاتھ سے لکھنے کی مشق کی  اور دسویں اوربارہویں کے بورڈ امتحانات کے بائیں ہاتھ سے لکھ کر حل کئے۔ مجھے غربت اورتعلیم دونوں کی اہمیت معلوم ہے اسی لئے بی ایم سی اسکولوںمیں پڑھنےوالے غریب بچوں کی پڑھائی کا نقصان نہ ہو اسی جذبہ کے تحت میں نے کبھی چھٹی نہیں لی۔

 ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’’۱۹۹۶ء میں میری اہلیہ ڈیلیوری کیلئے ساکی ناکہ کے پرینکا اسپتال میںزیر علاج تھیں۔ اس وقت اچانک  ان کی طبیعت سنگین ہوگئی تھی ۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ماں اور بچے دونوں کو کچھ بھی ہوسکتا ہے لہٰذا آپ کااسپتال میں رہنا ضروری ہے ۔ ایسی صور ت میں بھی میں نے ڈاکٹروں سے کہاتھاکہ آپ کوبھگوان سمجھ کر دونوں کو آپ کےسپرد کررہاہوں، امید ہے کہ جو ہوگا ٹھیک ہی ہوگا۔ جس پر ڈاکٹروں نے ایک حلف نامہ پرمیری دستخط  لئے تھے ۔ حلف نامہ میں لکھا تھا کہ اگر میری غیر موجودگی میں  ماں یا بچے کو کوئی  نقصان پہنچا تو اس کی  ذمہ داری مجھ پر ہوگی۔ میں نے اس شرط کو منظور کر لیا  اور دستخط کر کے اسکول چلاگیا۔ شام کو اپنی ڈیوٹی پوری کرنے کے بعد میں اسپتال پہنچا تو ماں(میری بیوی) اور نومولو د بچہ دونوں  صحت مند پایا۔ ان دونوں کو   دیکھ کر مجھے  بڑی مسرت ہوئی تھی۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK