Updated: October 27, 2024, 4:34 PM IST
| New Delhi
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ جب حکومت کا سربراہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے ملتا ہے تو ان ملاقاتوں میں سیاسی پختگی ہوتی ہے۔ اس سے عدالتی کام کاج پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ سی جے آئی نے یہ بھی کہا کہ جب ہم ریاستی حکومت یا مرکزی حکومت کے سربراہ سے ملتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی ڈیل ہوئی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی اور چیف جسٹس ڈی وائی چدرچڈ تصویر: آئی این این
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ جب حکومت کا سربراہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے ملتا ہے تو ان ملاقاتوں میں سیاسی پختگی ہوتی ہے۔ اس سے عدالتی کام کاج پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ سی جے آئی نے یہ بھی کہا کہ جب ہم ریاستی یا مرکزی حکومت کے سربراہ سے ملتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی ڈیل ہوئی ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ایک تقریب کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا سے پوچھا گیا کہ کیا یوم جمہوریہ، یوم آزادی یا دیگر مواقع پر سینئر جوڈیشل افسران اور سیاستدانوں کے درمیان ملاقاتیں ہوتی ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سی جے آئی چندر چوڑ نے کہا کہ ہمارے سیاسی نظام کی پختگی اس بات پر منحصر ہے کہ عدلیہ اور ان کے خیالات میں بہت فرق ہے۔
حکومتی سربراہوں سے بات چیت کا مطلب کوئی ڈیل نہیں
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی کام کی وجہ سے ہمیں ریاست کے وزیراعلیٰ سے بات کرنی پڑتی ہے کیونکہ وہی عدلیہ کیلئے بجٹ فراہم ہیں۔ یہی نہیں انہوں نے ایک مثال بھی دی۔ انہوں نے کہا کہ میں الہ آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تھا اور اس کے علاوہ میں نے بمبئی ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی میں بھی کام کیا۔ ریاستوں میں روایت ہے کہ جب کوئی پہلی بار چیف جسٹس بنتا ہے تو وہ وزیراعلیٰ سے ملتا ہے۔ ان تمام ملاقاتوں کا الگ الگ ایجنڈا ہے۔سی جے آئی نے کہا کہ عدالت اور حکومت کے درمیان انتظامی تعلق عدالتی کام سے الگ ہے۔ یہ روایت ہے کہ وزیراعلیٰ یا چیف جسٹس تہواروں یا سوگ میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اس سے ہمارے عدالتی عمل پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
ججوں پر کام کا بوجھ : چندر چڈ
عدالت میں تعطیلات کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات پر سی جے آئی نے کہا کہ لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ ججوں پر کام کا بہت زیادہ بوجھ ہے۔ انہیں سوچنے کے لیے بھی وقت درکار ہے، کیونکہ ان کے فیصلے معاشرے کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں خود رات ۳:۳۰؍بجے اٹھتا ہوں اور صبح۶؍ بجے اپنا کام شروع کرتا ہوں۔ انہوں نے امریکہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں کی سپریم کورٹ میں ایک سال میں۱۸۱؍ مقدمات کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ہماری جگہ ایک ہی دن میں اتنے سارے کیس نمٹائے جاتے ہیں۔ ہندوستانی سپریم کورٹ ہر سال تقریباً ۵۰؍ ہزار مقدمات کا فیصلہ کرتی ہے۔