• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ایکواڈور کی جیل میں مسلسل ۳؍ دن فساد، ۱۱۶؍ افراد ہلاک

Updated: October 02, 2021, 11:36 AM IST | Agency | Kyoto

جیل میں قید مجرموں کا ایک گروہ تنگ سوراخ کے ذریعے جیل کے دوسرے حصے میں پہنچ گیا جہاں مخالف گروہ کے مجرم قید تھے ۔ موقع پر ہی ۶؍ لوگوں کے سرقلم کر دیئے اور ۱۸؍ لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا جس کے بعد فساد شروع ہوا۔ منگل کو شروع ہونے والی واردات جمعرات تک مسلسل جاری رہی

Special police team entering the jail.Picture:Agency
پولیس کی خصوصی ٹیم جیل میں داخل ہوتے ہوئے تصویر: ایجنسی

 امریکی ملک ایکواڈور کی ایک جیل جہاں خطرناگ قیدی بند ہیں میں فساد کا بہیمانہ واقعہ پیش آیا جس میں  ۱۱۶؍ افراد ہلاک ہو گئے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ واردات پولیس اور جیل حکام کے ہوتے ہوئے ۳؍ دنوں تک جاری رہی۔  یہ لڑائی منگل کے روز شروع ہوئی تھی  اور بدھ کے روز حکام نے دعویٰ کیا کہ حالات کو قابو میں کر لیا گیا لیکن جمعرات کو اطراف کے لوگوں نے پھر جیل میں سے گولیوں اور شور شرابے کی آوازیں سنیں جسکے بعد حکام نے ۴؍ سو پولیس اہلکاروںکو بلوایا جنہوں نے جیل کی نگرانی پوری طرح سے اپنے ہاتھوں میں لے لی۔  
  لڑائی کیسے شروع ہوئی؟
 اطلاع کے مطابق منگل کو  جیل میں قید  ایک گروہ کے لوگ ایک تنگ سوراخ سے گزر کر جیل کے دوسرے حصے میں پہنچ گئے جہاں ان کے ایک مخالف گروہ سے تعلق رکھنے والے مجرموں کو رکھا گیا تھا۔ وہاں پہنچ کرانہوں نے اس گروہ کے لوگوںپر دھاوا بول دیا اور کم از کم ۶؍ افراد کی گردنیں اڑا دیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے مخالف گروہ پر بم گولے پھینکے اور کچھ کو گولی مار دی۔ یہ منگل کی سہ پہر کے واقعہ ہے جس میں کوئی ۲۴؍ افراد ہلاک ہوئے۔ لڑائی کے دوران جیل کے ۶؍ باورچی بھی ان غنڈوں کے درمیان پھنس گئے تھے جنہیں پولیس نے بڑی مشکل سے باہر نکالا۔ اس کوشش میں ۲؍ پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔  جیل حکام نے ان ۲۴؍ لاشوں کو وہاں سے نکال لیا تھا۔
  لیکن منگل ہی کی رات کو جیل کےاندر سے پھر گولیاں چلنے کی آوازیں آنے لگیںجو کہ بدھ کی صبح تک جاری رہیں۔  پولیس نے جیل کے مختلف حصوں کا جائزہ لیا تو انہیں مزید لاشیں برآمد ہوئیں جس کے بعد مہلوکین کی تعداد ۱۱۶؍ تک پہنچ گئیں۔ اس کے بعد پولیس نگرانی سخت کردی  اور دعویٰ کیا کہ حالات قابو میں کر لئے گئے ہیں۔لیکن جمعرات کی صبح دوبارہ جیل کے اندر فائرنگ شروع ہو گئی۔  اس  کے بعد جیل حکام نے ۴۰۰؍ پولیس حکام نے ایک خصوصی ٹیم کو بلایا جس نے جیل کی نگرانی اپنے ہاتھ میں لے لی ۔ تب کہیں جا کر معاملہ تھم گیا۔ جمعہ کو خبر لکھے جانے تک کسی طرح کی لڑائی کی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی۔
  جیل  میں ایمرجنسی 
  واقعے کے بعد بدھ کو ایکواڈور کے صدر نے جیل میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا حکم دیا۔ جیل میں ایمرجنسی کا مطلب ہوتا ہے کہ  قیدیوں کے حقوق سلب کرلئے جاتے ہیں جب تک کہ حالات پر معمول پر نہ آجائیں۔  اس کے علاوہ جیل میں مزید سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس دوران   جب اس فساد کی خبر شہر میں پھیلنے لگی تو قیدیوں کے اہل خانہ او ر رشتہ دار جیل کے باہر جمع ہونے لگے۔   انہیں اندر کے حالات کا علم تو نہیں تھا البتہ بعض لوگوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں جیل  کے اندر سے  ویڈیو بھیجے گئے تھے جس سے انہیں معلوم ہوا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ حالانکہ حکام نے ویڈیو کے تعلق سے لا علمی کا اظہار کیا ہے ۔ 
 جیل میں ہتھیار عام بات ہے  واضح رہے کہ ایکواڈور کی اس جیل میں اس طرح کی فساد پہلے بھی کئی بار ہو چکے ہیں۔ اسی سال فروری میں یہاں خونریز لڑائی ہوئی تھی جس    میں ۷۹؍ افراد ہلاک ہوئے تھے۔   یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان جیلوں میں قید مجرموں کے پاس ہتھیار کہاں سے آتے ہیں۔  ہتھیاروں کے  تعلق سے پوچھے گئے سوال پر جیل کے ڈائریکٹر گارزن نےانتہائی مضحکہ خیز انکشاف کیا۔  ان کا کہنا تھا کہ جیل میں بڑے پیمانے پر ہتھیار موجود ہیں۔ پولیس جیل میں چھان بین کرتی رہتی ہے  اور وہاں ملنے والے ہتھیاروں کو ضبط کر لیتی ہے مگر وہ بہت تھوڑے ہوتے  ہیں۔   ہتھیاروں کا اصل ذخیرہ یہ مجرم ایسی جگہ چھپاتے ہیں جہاں سے وہ پولیس کے ہاتھ نہیں لگتے۔   ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ میکسیکو میں سر گرم کئی گروہ سے وابستہ مجرم اس جیل میں قید ہے اور اس گینگ کے سربراہ دوسری گینگ کو کمزور کرنے کیلئے اس  قیدیوں کو جیل میں ہلاک کرواتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ منگل سے جمعرات تک ہونے والی اس واردات میں بھی کوئی ’باہری‘ ہاتھ ہی ہے جس نے ایک مخصوص گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو ختم کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ ان میں سے بیشتر گینگ جو ہے وہ منشیات کے کاروبار میں ملوث ہیں اور اس دھندے  میں اپنا دبدبہ قائم رکھنے کیلئے خون خرابہ کرتے رہتی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK