• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مہاراشٹر میں این ڈی اے کے مقابلے’ انڈیا اتحاد‘ مضبوط؟

Updated: December 26, 2023, 12:46 PM IST | Agency | Mumbai

سی ووٹر کے سروے کے مطابق آج لوک سبھا الیکشن ہو جائیں تو مہا وکاس اگھاڑی کے حصے میں ۲۶؍ سے ۲۸؍ سیٹیں آئیں گی جبکہ این ڈی اے کو ۱۹؍ تا ۲۱؍ سیٹیں ملیں گی۔

Election In Maharashtra 2024. Photo: INN
مہاراشٹر میں الیکشن ۲۰۲۴۔ تصویر : آئی این این

سی ووٹر نے لوک سبھا انتخابات کے تعلق سے سروے ظاہر کیا ہے جس میں مہا وکاس اگھاڑی کو  زیادہ سیٹیں ملتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ سروے میں مہا وکاس اگھاڑی کو ۲۶؍ تا ۲۹؍ سیٹیں دی گئی ہیں جبکہ مہا یوتی یعنی بی جے پی، شیوسینا  اور این سی پی ( اجیت) والےاتحاد کو ۱۹؍ تا ۲۱؍ سیٹیں ملی ہیں۔  اتنا ہی نہیں ووٹوں کے تناسب میں بھی مہا وکاس اگھاڑی آگے ہے۔  یاد رہے کہ بی جے پی نے پہلے شیوسینا اس کےبعد این سی پی میں پھوٹ ڈال کے اس کے اہم لیڈروں کو اپنے ساتھ اسی لئے ملایا تھا کہ اس کے ووٹوں کا تناسب بڑھ جائے لیکن کم از کم سی ووٹر کے سروے میں تو ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
یاد رہے کہ لوک سبھا الیکشن میں اب صرف ۴؍ مہینے رہ گئے ہیں۔ اس دوران تمام پارٹیوں نے اپنی اپنی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ ساتھ ہی سروے ایجنسیوں کی جانب سے عوام کی مرضی معلوم کرنے کی کوشش بھی جاری ہے۔ اسی ضمن میں سی ووٹر نے ایک سروے کیا ہے جس میں مہا وکاس اگھاڑی یعنی  این سی پی (شرد) کانگریس اور شیوسینا ( ادھو) کے اتحاد کو ریاست کے کل ۴۸؍ پارلیمانی حلقوں میں سے ۲۶؍ تا ۲۹؍ سیٹوں پرجیت درج کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔ جبکہ بی جے پی، این سی پی ( اجیت) اور  شیوسینا( شندے) والے اتحاد  کو ۱۹؍ تا ۲۱؍ سیٹیں ملتی ہوئی دکھائی گئی ہیں۔ ایسی صورت میں کہا جا سکتا ہے کہ مہاراشٹر میں ’انڈیا اتحاد‘ بی جے پی کو شکست دینے کی  پوزیشن میں ہے۔ بات صرف سیٹوں کی نہیں ہے بلکہ ووٹوں کےتناسب میں بھی مہا وکاس اگھاڑی آگے ہے۔  اس اتحاد کو مجموعی طور پر ۴۱؍ فیصد ووٹ ملنے کا امکان ہے۔ جبکہ ’مہا یوتی‘ کو اس سے کچھ ہی کم یعنی ۳۷؍ فیصد ووٹ ملتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ بقیہ ۲۲؍ فیصد ووٹ دیگر پارٹیوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ 
 یاد رہے کہ ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا الیکشن میں ریاست کی ۴۸؍ سیٹوں میں  این ڈی اے کو ۴۲؍ سیٹیں ملی تھیں جن میں سے ۲۵؍ بی جے پی کے حصہ میں آئی تھیں جبکہ ۱۸؍ شیوسینا (متحدہ) کے۔ یاد رہے کہ ا س وقت ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں پوری شیوسینا این ڈی اے میں تھی۔  ادھر کانگریس اور این سی پی اتحاد کو محض ۵؍ سیٹیں ہاتھ لگی تھیں۔ ان میں سے این سی پی کو ۴؍ اور کانگریس کو ایک ملی تھی۔ جبکہ ایک سیٹ ایم آئی ایم کے کھاتے میں گئی تھی۔ اب صورتحال الگ ہے ۔ کیونکہ شیوسینا اور این سی پی  دونوں ہی پارٹیوں میں  پھوٹ پڑنے کے بعد تقریباً تمام بڑے لیڈران  بی جے پی کے ساتھ چلے گئے ہیں۔ اس کے باوجود اگر سروے میں مہاوکاس اگھاڑی کو کامیاب بتایا جا رہا ہے تو یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے۔ 
ہمیں اور زیادہ سیٹیں حاصل ہوں گی: سنجےرائوت
حالانکہ گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں یہ اپنے آپ میں بڑی کامیابی ہے لیکن شیوسینا( ادھو)کے ترجمان سنجے رائوت اس سروے سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مہا وکاس اگھاڑی کو اور زیادہ سیٹیں حاصل ہوں گی۔ ان کے دعوے کے مطابق مہا وکاس اگھاڑی ۴۰؍ سیٹیں حاصل کر سکتی ہیں۔ انہوں نے ممبئی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ’’ ہم نے ۳۵؍ تا ۴۰؍ سیٹیں جیتنے کی تیاری کی ہے۔ لوک سبھا الیکشن سے قبل شندے گروپ کے کئی اراکین شیوسینا ( ادھو) یا مہا وکاس اگھاڑی کی کسی اور پارٹی میں شامل ہوں گے۔ اسلئے ہمیں یقین ہے کہ ہم ۴۰؍ سیٹیں تک جیت سکتے ہیں۔‘‘ بی جے پی کی جانب سے مہاراشٹر میں لوک سبھاکی ۴۵؍ سیٹیں جیتنے کے دعویٰ پر طنز کرتے ہوئے رائوت نے کہا ’’  بی جے پی ملک میں ایک ہزار اور مہاراشٹر میں ۱۴۸؍ سیٹیں جیتنے والی ہے کیونکہ وہ ہوا میں کام کرنے والی پارٹی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’ بی جے پی کا ۴۵؍ سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنے کا دعویٰ مضحکہ خیز ہے۔‘‘ 
اس دوران این سی پی کے باغی لیڈر اجیت پوار نے اس سروے کے تعلق سے کہا ہے کہ ’’ کیا اپوزیشن کے پاس نریندر مودی جیسا کوئی لیڈر ہے؟  اپوزیشن جب وزیر اعظم کے عہدے کیلئے اپنے امیدوار کا اعلان کرے گاتو عوام اس کا موازنہ ضرور کریں گے۔ ‘‘ سروے کے تعلق سےانہوں نے کہا’’ اس سروے کی کوئی اہمیت نہیں  ہے کیونکہ یہ اندازے کی بنیاد پر جاری کئے جاتے ہیں۔ آپ نے ۵؍ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے دوران دیکھا تھا کہ سروے کیا کہہ رہے تھے اور اس کے نتائج کیا آئے تھے۔‘‘ یاد رہے کہ ۵؍ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں  ہر ایک سروے میں بی جے پی کی شکست کا اندازہ لگایا گیا تھا لیکن ۳؍ اہم ریاستوں میں بی جے پی نے جیت حاصل کی تھی۔   اس سروے میں سی ووٹر کا سروے بھی شامل تھا جس نے بی جے پی کی شکست کی قیاس آرائی کی تھی۔ حالانکہ یہ سارے اندازے غلط ثابت ہوئے تھے۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK