ریاض میں اسلامک تعاون تنظیم اور عرب لیگ کی مشترکہ میٹنگ میں اسرائیل کو مزید جارحیت سے باز آجانے کا انتباہ، عالمی برادری سے قیام امن کی ذمہ داری نبھانے کی اپیل
EPAPER
Updated: November 11, 2024, 11:30 PM IST | Riyadh
ریاض میں اسلامک تعاون تنظیم اور عرب لیگ کی مشترکہ میٹنگ میں اسرائیل کو مزید جارحیت سے باز آجانے کا انتباہ، عالمی برادری سے قیام امن کی ذمہ داری نبھانے کی اپیل
غزہ اورلبنان میں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف سعودی دارالحکومت ریاض میں پیر کو اسلامک تعاون تنظیم (او آئی سی) اور عرب لیگ کے مشترکہ اجلاس میں تل ابیب سے مزید جارحیت سے فوری طور پر باز آجانے کی اپیل کی گئی جبکہ اجلاس میں شریک لیڈروں نے عالمی برادری سے بھی قیام امن کی ذمہ داری نبھانے کی اپیل کی ۔اجلاس میں سعودی عرب، اردن، مصر، قطر، ترکی، انڈونیشیا، نائیجیریا، فلسطین اور دیگر سربراہان مملکت کے ساتھ ساتھ عرب لیگ کے نمائندے اور او آئی سی کے سیکریٹری جنرل بھی موجود تھے۔
عالمی برادری سے فلسطین کو تسلیم کرنے کی اپیل
اجلاس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا کہ فلسطین اور لبنان میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف سعودی عرب اہل فلسطین و لبنان کے ساتھ کھڑاہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اسرائیل کی جانب سے جاری فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان پر کئے جانیوالے بہیمانہ تشدد کے خلاف سعودی عرب نے ہمیشہ آواز اٹھائی ہے،اوراب بھی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ ‘‘ انہوں نے اسرائیل سے مزید جارحیت سے باز آجانے کی اپیل کرتے ہوئے عالمی برادری سے اپیل کی وہ فلسطین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کریں ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ ’’عالمی امن کے تحفظ کی اپنی ذمہ داری کو نبھائیں اور فلسطین و لبنان میں ہمارے بھائیوں کے قتل عام کی باعث بننےوالی کارروائیوں کو فوری طور پر رُکوائیں۔ ‘‘
سعودی عرب نے ایران کیلئے بھی آواز اٹھائی
اُخوت اور بھائی چارہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے محمد بن سلمان نے ایران کی حمایت میں بھی آواز بلند کی اور اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ ’’ایران کی سالمیت اور حق خود ارادیت کا احترام کرے اوراس کی سرمین پر حملوں سے باز رہے۔‘‘واضح رہے کہ اسرائیلی حملوں میں غزہ میں اب تک ۴۳؍ ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں ۷۰؍ فیصد بچے اور خواتین ہیں۔
ہنگامی اجلاس کا مقصد
سعودی عرب کی قیادت اور میزبانی میں ہونے والے اس اجلاس کا مقصد عالمی قوتوں پر غزہ اور لبنان میں اسرائیلی جارحیت کو ختم کرانے کا دباؤ ڈالنا اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اصولوں پر مبنی دیرپا اور جامع امن کیلئے انہیں سنجیدہ کوششوں کی طرف راغب کرنا ہے۔
غزہ کی صورت حال پر کچھ عرصہ قبل عرب اور اسلامی سربراہی اجلاس کے دوران تشکیل دی گئی وزارتی کمیٹی عالمی رہنماؤں اور حکام کے ساتھ سفارتی سطح پر ملاقاتوں کا سلسلہ پہلے ہی شروع کرچکی ہے۔ ان ملاقاتوں کے دوران کمیٹی کے ارکان نے اسرائیلی فوجی جارحیت کو روکنے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے بنیادی انسانی ضروریات اور طبی امداد کی فراہمی کے لیے غزہ تک محفوظ راہداریوں کے قیام پر زور دیا تھا۔
اسرائیلی مظالم ناقابل بیان
اجلاس سے خطاب میں عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابوالغیث نے بھی غزہ اور لبنان میں اسرائیل کے ذریعہ قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’فلسطینی عوام کی حالت زار کو بیان کرنے کیلئے الفاظ ناکافی ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’اسرائیل فلسطینی عوام کے خلاف جو کچھ کررہاہے اس کی وجہ سے دیر پا امن کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں۔ ‘‘انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’’انصاف کے ذریعہ ہی دیر پاامن قائم ہوسکے گا۔‘‘ سعودی پریس ایجنسی کے مطابق غزہ اور لبنان میں ’’جارحیت ‘‘ نے ’’عرب اور مسلم لیڈران کو ہنگامی ایکشن پر مجبور کر دیا ہے۔‘‘
عرب اور مسلم ممالک کے قائدین کے اس ہنگامی اجلاس میں شرکت کیلئے سربراہان مملکت کے پہنچنے کا سلسلہ اتوار سے ہی شروع ہوگیاتھا جو پیر تک جاری رہا۔ ایران کی جانب سے اجلاس میں ملک کے پہلے نائب صدر محمد رضا عارف شریک ہیں۔اس سے قبل ایک سال قبل اسی طرح کی میٹنگ قاہرہ میں ہوئی تھی۔ ۵۷؍ رکنی او آئی سی اور ۲۲؍ رکنی عرب لیگ میں کئی ایسے ممالک بھی شامل ہیں جو اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں۔