کیرالا کےملا پورم سے انڈین یونین مسلم لیگ کے رکن پارلیمنٹ ای ٹی محمد بشیر نے آئین پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مختلف حوالوں سے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پرجامع گفتگو کی۔
EPAPER
Updated: December 22, 2024, 2:15 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
کیرالا کےملا پورم سے انڈین یونین مسلم لیگ کے رکن پارلیمنٹ ای ٹی محمد بشیر نے آئین پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مختلف حوالوں سے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پرجامع گفتگو کی۔
’’مجھے اس تاریخی اجلاس میں شرکت کا موقع دینے کیلئے بہت بہت شکریہ۔ میں ڈاکٹر امبیڈکر کے الفاظ سےشروعات کرنا چاہوں گا جو سیاست میں اخلاقیات کے حامی تھے۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا ’’میرا خیال ہےکہ آئین اگراچھا ہوتو اوراس پرکام کرنے والے اگر برے ہوں تو یہ برا ہوجائے گا اورآئین اگر بُرا ہےاور اس پر کام کرنے والے اگر اچھےہیں تو یہ اچھا ہوجائےگا۔ ‘‘وہ دوراندیش تھے۔ سر ، یہی ہندوستانی آئین کی خوبصورتی ہے۔ ابوالکلام آزاد کا ایک خواب تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’ہندوستان ایک ثقافتی وحدت ہے۔ یہ پھولوں کے اس گلدستے کی مانند ہے جس میں مختلف رنگوں کے پھول ہیں اورسبھی اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ ‘‘ اس قول میں بھی کتنی دور اندیشی ہے ، یہ سمجھا جاسکتا ہے۔ سر، ہندوستان آئین کے دوبازو ہیں ، سیکولرازم اورشمولیت۔ اگر ہم ایک لفظ میں ہندوستانی آئین کا تجزیہ کرنا چاہیں تو وہ ہوگا انصاف۔ یہ (آئین) آزادی ، مساوات اور اخوت پر مبنی ہےمگر آج ملک دوسری ہی سمت میں جارہا ہےجو باعث تشویش ہے۔
سر، یہ معاملہ آئینی حقوق کا ہے۔ وہ آئینی حقوق جو ملک کی اقلیتوں کو حاصل ہیں۔ وہ آئینی حقوق جوآئین کی دفعات ۱۴، ۲۵، ۲۹(۱)، ۲۹(۲) ، ۳۰؍ اور۳۴۷؍ میں دئیے گئے ہیں۔ یہ سبھی دفاع اور شقیں اقلیتوں کے آئینی حقوق سے متعلق ہیں ، لیکن آج یہ حقوق دبائےجارہے ہیں اور چیزیں مخالف سمت میں جارہی ہیں۔ میں کہنا چاہوں گا کہ ہمارے آباواجدادنے جس راستے پرچلنےکا خواب دیکھا تھا، موجودہ حکومت اس راستے سے منحرف ہورہی ہے۔ اگر کوئی پوچھے کہ سیکولر ہندوستان کیلئے سب سے افسوس ناک دن کون سا ہے تو میں صرف یہی کہوں گاکہ وہ دن ۶؍ دسمبر۱۹۹۲ءتھا جب دائیں بازو کی قیادت میں بابری مسجد کو شہید کردیاگیا۔ اس دن کیا ہوا؟ جنہوں نے بابری مسجد شہید کی، انہوں نے نعرے لگائےاور آج بھی اسی راستےپر چل کرالگ طریقے سے یہی حربہ اپنایا جارہا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ (آرکیالوجیکل ) سروے کے ذریعے یہی داؤ کھیلا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہےکہ انہوں نے ۱۷۲؍ عبادتگاہوں (مسجدوں) کی نشاندہی کی ہے جن کا سروےکیاجانا ہے۔ اس سے سسٹم میں کنفیوژن پیدا ہورہا ہے۔ یہ حکومت ثابت کررہی ہےکہ ملک میں چیزیں صحیح سمت میں نہیں ہورہی ہیں۔ ایسا سمجھ میں آتا ہےکہ حکومت نے عہد کررکھا ہےکہ وہ چیزوں کو صحیح سمت میں چلنے نہیں دے گی۔
عبادتگاہ قانون ۱۹۹۱ء کےتعلق سے الہ آبادہائی کورٹ کے فیصلے کےتناظرمیں سپریم کورٹ کا جوفیصلہ آیا وہ قابل فخر ہے۔ اسی سروے کے بہانے سنبھل میں ۵؍ بے قصوروں کی جانیں گئیں۔ مسجدوں میں داخل ہوکر نعرے لگائے جارہے ہیں۔ مسلمانوں کے مکانوں اور دکانو ں کو تباہ کیا جارہا ہے۔ یہ سب حکومت کی ایماپرہورہا ہے۔ سوال یہ ہےسرکہ جب محافظ خودلٹیرا بن جائے توملک کو کون بچائے گا۔ خدا ہی اس ملک کو بچائے، چیزیں مخالف سمت میں جارہی ہیں۔
نفرت انگیز تقریروں کا دائرہ بڑھتا جارہا ہے، یکساں سوڈ کوڈ کی تیاری ہے، مختلف ریاستوں میں نئے رجسٹربنائے جارہے ہیں۔ مسلمانوں کو سماجی ا ور معاشی طورپر حاشیہ پرکرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ کسی معاشرہ کا جائزہ اس بنیاد لیاجانا چاہئے کہ اس میں اقلیتوں کےساتھ کیسا سلوک کیاجاتا ہے۔
جمہوریت کا اصل امتحان یہ ہےکہ وہ اپنی کمزور ترین اقلیت کا تحفظ کیسے کرتی ہے۔ یہ سیاسی اندھ بھکتی کا دور ہےجو(اندھ بھکت) امن اور اتحاد پریقین نہیں کرتے۔ عدلیہ اپنا وقار کھورہی ہے۔ منی پور جل رہا ہے۔ مودی پوری دنیا گھوم رہے ہیں لیکن وہاں نہیں گئے۔ ان معاملات کاحکومت سنجیدگی سے نوٹس لے۔