• Thu, 14 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’غزہ جنگ میں عالمی برادری بھی مجرم ہے‘‘

Updated: November 04, 2024, 10:35 AM IST | Genoa

عالمی تنظیم ’یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر‘ کے مطابق بین الاقوامی نظام کی مجرمانہ بے حسی اسرائیل کو حوصلہ دینے والی ہے۔

The international community could not do anything but remain silent on every such scene in Gaza. Photo: INN.
غزہ کے ایسے ہر منظر پر عالمی برادری سوائےخاموش رہنے کے اور کچھ نہیں کرسکی۔ تصویر: آئی این این۔

انسانی حقوق کیلئے سرگرم عالمی تنظیم ’یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر‘ نے کہا کہ غزہ خاص طور پر اس کے شمال میں قابض اسرائیلی فوج کے ہاتھوں نہتے فلسطینیوں کے قتل عام کی روک تھام میں فیصلہ کن اقدام کرنے میں بین الاقوامی نظام کی ناکامی اسے جرائم میں شریک بناتی ہے۔ عالمی نظامی کی اس مجرمانہ بے حسی اور کمزوری قابض صہیونی فاشسٹ ریاست کو اپنے جرائم جاری رکھنےکا حوصلہ دے رہے ہیں۔ نسل کشی کا جرم فلسطینیوں کی زندگیوں اور وقار کے لیے عالمی نظام کی بے توقیری کا واضح ثبوت ہے۔  یورو-میڈیٹیرینین آبزرویٹری نے ہفتہ کے روز ایک بیان میں کہا کہ بین الاقوامی نظام بشمول بین الاقوامی فوجداری عدالت، بین الاقوامی عدالت انصاف، یوروپی یونین اور اقوام متحدہ کی مختلف تنظیمیں سبھی بنیادی اہداف اور اصولوں پر عمل کرانے میں ناکام رہی ہیں۔ جن اصولوں اور قوانین پر ان اداروں کی بنیاد رکھی گئی تھی ان کے حوالے سے ان اداروں نے ۱۳؍ ماہ کے دوران شرمناک ناکامی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ عالمی ادارے اور عالمی نظام معصوم شہریوں کو تحفظ فراہم کرکے اور غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی نسل کشی کے جرم کو روکنے میں ناکام ہوچکا ہے۔  یورو میڈ نے مزید کہا کہ مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی جرائم کا تسلسل خاص طور پر غزہ میں گزشتہ برسوں میں اس وقت نسل کشی کے بڑھتے ہوئے جرائم کے دوران اجتماعی سلامتی کے نظام میں ساختی خرابی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ نظام سنگین جرائم کو روکنے کے لیے قائم کیا گیا تھا مگر آج یہ بے حسی اور بزدلی کی گہرائیوں پر گرچکا ہے۔  یورو- میڈیٹیرینین آبزرویٹری نے اس بات کی تصدیق کی کہ بین الاقوامی برادری اور بین الاقوامی انصاف کے نظام نے سنگینی اور ہولناک نوعیت کے باوجود جرائم کو سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ انہیں بڑی حد تک نظر انداز کیا، جبکہ بعض ممالک اور اداروں نے زیادہ زیادہ مذمتی بیانات تک خود کو محدود رکھا۔ غزہ میں اندھا دھند بمباری اور بے گناہ لوگوں کے انسانیت سوز حالات میں بھی عالمی اداروں اور عالمی نظام کو نہیں جھنجھوڑا۔ عالمی نظام امریکہ، مغرب اور یوروپی ممالک کے ہاتھوں میں یرغمال ہوچکا ہے۔ اس عالمی نظام انصاف کے ہوتے ہوئے فلسطینیوں کی اعلانیہ اور بے رحمانہ نسل کشی کی جا رہی ہے۔ 
دوسری طرف غزہ میں انسانی بنیادوں پر سامان کی ترسیل کے لیے دیے گئے امریکی الٹی میٹم کے باوجود اسرائیل انسانی بنیادوں کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہاہے۔ حد یہ ہے کہ امریکی الٹی میٹم کو بھی اسرائیل عمل کے قابل سمجھنے سے عملاً انکاری ہے۔ واضح ہوکہ امریکہ نے اسرائیل کو ۳۰؍ دنوں کا الٹی میٹم دیا تھا کہ اسرائیل اس دوران اپنی کار گزاری کچھ بہتر بنائے بصورت دیگر اسرائیل کی فوجی امداد میں کچھ کمی کا خدشہ ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے۱۳؍ اکتوبر کو اسرائیل کو ایک خط لکھا تھا، لیکن اسرائیل نے اس خط میں دی گئی ڈیڈ لائن اور مطالبات کو پورا کرنے سے گریز ہی کی پالیسی کو جاری رکھا ہوا ہے۔ گویا اس سلسلے میں امریکی ہدایت بھی کافی نہیں سمجھی جا سکتی ہے۔ اس کی تصدیق اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کی مشترکہ کمیٹی کے مشترکہ بیان میں اسرائیل کی بمباری اور اس تباہی کے علاوہ غزہ پر بالعموم اور شمالی غزہ میں بالخصوص جاری صورت حال کو جس طرح بیان کیا ہے اس میں غزہ میں انتہائی بنیادی اشیائے ضروریہ کو بھی غزہ کے جنگ زدہ فلسطینیوں کے نزدیک نہیں جانے دیا ہے۔ اس وجہ سے اقوام متحدہ کے ذمہ دار ترین عہدے داروں نے بھوک، بیماری اور قحط کا بھی غزہ میں خوف بتایا ہے۔ دونوں امریکی وزرا نے اسرائیل کے لیے اپنے خط میں غزہ کی بگڑتی ہوئی انسانی صورت حال میں بہتری کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ اسرائیل کوراہداریوں سے ایک دن میں کم از کم ۳۵۰؍ ٹرکوں کی اجازت دینی چاہیے جو اشد ضروری خوراک اور دیگر سامان لے کر غزہ جاسکیں۔ بلا شبہ ان کے نزدیک امریکی صدارتی انتخاب کے دوران غزہ جنگ کے مخالف ووٹروں کو کچھ باور کرانا بھی ضروری تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK