این سی پی سربراہ نے اپنی حکومت میں اقلیتوںکیلئے متعارف کرائی گئی اسکیموں کی تفصیلات پیش کیں، ’بٹیں گے تو کٹیں گے ‘کے نعرہ پر اپنا اختلاف برقرار رکھتے ہوئے ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ کا عزم دہرایا
EPAPER
Updated: November 17, 2024, 12:18 AM IST | Pune
این سی پی سربراہ نے اپنی حکومت میں اقلیتوںکیلئے متعارف کرائی گئی اسکیموں کی تفصیلات پیش کیں، ’بٹیں گے تو کٹیں گے ‘کے نعرہ پر اپنا اختلاف برقرار رکھتے ہوئے ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ کا عزم دہرایا
این سی پی کے صدر اجیت پوار جنہوں نے مہایوتی میں رہتے ہوئے بی جےپی کے ’’بٹوگے تو کٹوگے‘‘نعرے کی پرزور مخالفت کی اور اسمبلی الیکشن میں اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنےوالے ۵؍ امیدوار اتارے، نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ سیکولرزم میں یقین رکھتے ہیں، میڈیا سے گفتگو کے دوران انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ ’’نائب وزیراعلیٰ کے طور پر بھی میں نے اقلیتوں کے مفاد کا بھر پور خیال رکھا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ شندے سرکار میں بطور نائب وزیر اعلیٰ حلف لینے کے بعد سے اجیت پوار نے حکومت میں اقلیتوں کی نہ صرف نمائندگی کی بلکہ ان کے تحفظ اور ان کی ترقی کیلئے ضروری اقدامات بھی کئے۔ اپنے امیدواروں کیلئے انتخابی مہم میں مصروف اجیت پوار نے مختلف مقامات پر میڈیا سے گفتگو کے دوران اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ میں یقین رکھتے ہیں۔ جمعہ کو ناسک میں انہوں نے اپنے انتخابی جلسہ کے بعد بتایا کہ ان کے نائب وزیراعلیٰ رہتے ہوئے شندے حکومت نے اقلیتوں کے حق میں متعدد فیصلے کئے ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ مدرسوں میں اساتذہ کی تنخواہ جو ۶؍ ہزار روپے ماہانہ تھی، کو ان کی حکومت میں بڑھا کر ۱۶؍ ہزار روپے کیاگیا۔ اسی طرح جن کی تنخواہ ۸؍ ہزار تھی، ان کی تنخواہ بڑھ کر ۱۸؍ ہزار ہوگئی۔ اس کےساتھ ہی اجیت پوار نے دعویٰ کیا کہ بطور نائب وزیراعلیٰ انہوں نے اس بات کی پوری کوشش کی کہ اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی نہ ہواوران کیلئے سیکوریٹی کے مسائل پیدا نہ ہونے پائیں۔ اس ضمن میں انہوں نے یاددہانی کرائی کہ یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے متنازع نعرے ’ بٹوگے تو کٹو گے‘ کے خلاف سخت اعتراض کرنےوالوں میں وہ سب سے آگے ہیں۔
وزیر اعلیٰ کی لاڈلی بہن اسکیم شروع کرانے میں بھی اپنے رول کا حوالہ دیتے ہوئے اجیت پوار نے کہا کہ ’’اس سے بہنوں اور بیٹیوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ مل رہا ہے کیونکہ جن کے پاس نوکری، کاشت کاری یا آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے وہ اس اسکیم سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔‘‘ انہوں نے اس اسکیم کو زیادہ سے زیادہ مسلم خواتین تک پہنچانے میں شری وردھن میں رکن پارلیمنٹ سنیل تٹکرے اور ان کے کارکنوں کے رول کی پزیرائی کی اور کہا کہ ’’پارٹی کے مہاراشٹرا کے صدر سنیل تٹکڑے کے ہمراہ اقلیتی شعبہ کے کارکنان نے باقاعدہ کامیاب تحریک چلائی۔ ‘‘
اجیت پوار نے یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ’بٹیں گے تو کٹیں گے ‘نعرے پر اپنے موقف کو دہراتے ہوئے کہا ہےکہ میں نے ایک عوامی ریلی اور میڈیا انٹرویوز میں اس پر اپنا اعتراض اور اختلاف ظاہر کیا جس کے بعد کچھ بی جے پی لیڈروں نے بھی تائید کی۔ واضح ہو کہ اجیت پوار اور بی جے پی زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیت کر مہایوتی کی بالادستی برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لاڈلی بہن اسکیم کے تحت دیہی علاقوں کی خواتین کیلئے ڈیڑھ ہزار روپے کا اعلان اور وقت پر اس کی تقسیم سے پارٹی نے کافی امید وابستہ کی ہے۔
نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار نے بتایا کہ ’’ وقف بورڈ کیلئے ۲۰؍ کروڑ روپے کا فنڈ دیا، مولانا آزاد مائنارٹیز فائناشیئل کارپوریشن کا فنڈ۷۰۰؍ کروڑ سے بڑھا کرایک ہزار کروڑ روپے کردیا ۔ یہی نہیں اورنگ آباد میں مائنارٹیز کمشنریٹ کا دفتر شروع کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب اورنگ آباد میں مائنارٹیز کمشنریٹ شروع کیا گیا ۔اس سے مسلمانوں کو کافی راحت ملی ہے۔‘‘ این سی پی سربراہ نے نشاندہی کی کہ ان کی کوششوں سے ہی اعلیٰ تعلیم میں اقلیتی طلبہ کے اسکالر شپ کی رقم بڑھا کر ۵۰؍ ہزار روپے کی گئی۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اقلیتیں بھی سماج کے دیگر طبقات کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلیں اور ترقی کی نئی منزلوں کو چھوئیں، اجیت پوار نے بتایا کہ ’’ہماری حکومت نے اَنّا بھاؤ ساٹھے ریسرچ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (آرٹی) کی طرز پر مولانا آزاد ریسرچ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (مارٹی) شروع کیا جس کا مقصد نوجوانوں کو نئے مواقع کیلئے تیار کرنا ہے۔ ‘‘ اجیت پوار نے کہا کہ ’’ہم اوروں کی طرح نہیں ہیں، ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں۔‘‘ اجیت پوار نے اقلیتوں کے تعلق سے اپنے پابند عہد ہونے کی ایک اور مثال دیتے ہوئے بتایاکہ اسمبلی الیکشن کیلئے مہایوتی میں ان کے حصہ میں ۶۰؍ سیٹیں آئیں جن میں سے ۵؍ سیٹیں انہوں نے اقلیتی امیدواروں کو دیں۔ نائب وزیراعلیٰ نے توجہ دلائی کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے میں یقین رکھتے ہیں اس لئے سیٹوں کی تقسیم میں بھی اس کا خیال رکھا ۔ ۱۲ء۵؍ فیصد نشستیں درج فہرست ذات و قبائل کو دیں تو ۱۰؍ فیصد خواتین کو اور ۱۰؍ فیصد اقلیتوں کو۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ’’بقیہ سیٹیں ان لیڈروں کو دی گئیں جو شیو، شاہو، پھلے اور امبیڈکر کےنظریات پر یقین رکھتے ہیں۔