• Sun, 05 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

حکم امتناع کے باجود کمال مولیٰ مسجد میں کھدائی پرسپریم کورٹ شدید برہم

Updated: January 03, 2025, 12:01 PM IST | Ahmadullah Siddiqui | New Delhi

محکمہ آثار قدیمہ نے ایم پی ہائی کورٹ کے مارچ کے حکم کے بہانے مسجد میں کھدائی کی جس پر سپریم کورٹ کی بنچ نے معاملہ چیف جسٹس کے حوالے کردیا۔

The historical Kamal Moola Masjid in Dhar is currently guarded by the police. Photo: INN
دھار میں واقع تاریخی کمال مولیٰ مسجد جہاں اس وقت پولیس کا پہرہ ہے۔ تصویر: آئی این این

عبادتگاہوں کے تحفظ قانون پر فیصلہ آنے تک مساجد اور درگاہوں کے سروے سے متعلق کسی طرح کا حکم جاری نہ کرنے کے سپریم کورٹ کے بالکل واضح اور سخت احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) کے ذریعہ ایم پی کے دھار شہر کی تاریخی اہمیت کی حامل کمال مولیٰ مسجد میں کھدائی کی جارہی ہے۔ اس پر جمعرات کو سپریم کورٹ نے شدید اور نہایت سخت برہمی کااظہار کرتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی کرنے کی وارننگ دی اور یہ معاملہ چیف جسٹس کو سونپ دیا تاکہ وہ کوئی مناسب فیصلہ کریں۔ 
 سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے باجود دائیں بازو کے عناصر اپنی کوششوں سے باز نہیں آرہے ہیں۔ ان عناصر نے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے گزشتہ سال مارچ میں جاری کئے گئے سروے کے حکم کا سہارا لے کر دھار میں واقع چشتیہ سلسلہ کے بزرگ صوفی کمال الدین سے منسوب کمال مولیٰ مسجد میں سروے کے نام پر کھدائی کا کام شروع کرا دیا۔ حکومتی ادارے آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا نے سپریم کورٹ کے احکامات کی شدید خلاف ورزی کرتے ہوئے کھدائی کا کام جاری رکھاجس کے خلاف مسلم فریق نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی کی درخواست کی۔ 
 سپریم کورٹ میں جمعرات کو اس معاملے کی سماعت ہوئی جس میں جسٹس رشی کیش رائے اور ایس وی این بھٹی کی بنچ نے مسلم فریق کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے وکیل وشنو شنکر جین کے اس دعویٰ پرسخت برہمی ظاہر کی کہ کمال مولیٰ مسجد عبادتگاہوں کے تحفظ قانون کے دائرے میں نہیں آتی بلکہ یہ اے ایس آئی کی تحویل میں ہے۔ بنچ نے اس دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئےوشنو شنکر جین اور دیگر کو اس معاملہ میں توہین عدالت کی کارروائی کی وارننگ دی۔ بنچ نے ہندو فار جسٹس نامی تنظیم اور دیگر پر بھی سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ اگر وہ اس طرح سے اصرار کرنا چاہتے ہیں تو آئیے توہین عدالت کا معاملہ اٹھاتے ہیں۔ ہم نے کچھ تصویریں دیکھی ہیں۔ ہم نے کہا تھا کہ کوئی کھدائی نہیں ہوگی۔ ہمیں تصویروں سے پتہ چلتا ہے کہ کھدائی جاری ہے۔ ‘‘ بنچ نے وشنو شنکر جین سے نہایت سختی سے پوچھا کہ آیا وہ توہین عدالت کے مرتکب ہونے والوں کی طرف سے نوٹس قبول کرنا چاہتے ہیں؟

اس کےبعد بنچ نے رجسٹری کو ہدایت دی کہ وہ اس معاملہ کوچیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کے سامنے پیش کریں اور ان سے مناسب ہدایات لیں کیوں کہ ان کے پاس ہی عبادتگاہوں کے تحفظ قانون سے متعلق کئی درخواستیں زیر التواء ہیں اور انہی کی بنچ نے نئے سروے یا کھدائی پر حکم امتناع دیا ہے۔ خیال رہے کہ ہندو فار جسٹس نامی دائیں بازو کی تنظیم نے ۱۱؍مارچ کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرکے کمال مولیٰ مسجد کے سروے کا مطالبہ کیاتھا۔ اس کے بعد ہائی کورٹ نے اے ایس آئی کو سروے کرنے کی اجازت دی تھی۔ ہائی کورٹ نے اے ایس آئی کو ۲؍جولائی کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی تھی، لیکن اے ایس آئی نےمزید مہلت طلب کی۔ اس درمیان سنبھل میں شاہی جامع مسجد میں سروے کے نام پرہنگامہ آرائی اور پولیس اورانتظامیہ کی فائرنگ میں پانچ مسلم نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد کئی ملی تنظیموں نے سپریم کورٹ سے رجوع کرکے عبادتگاہوں کے تحفظ قانون پر جلد سماعت کی درخواست کی تھی۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے ملک بھرمیں اس طرح کے سروے پر روک لگادی تھی اور سختی کے ساتھ کہا تھا کہ چونکہ معاملہ چیف جسٹس کی بنچ میں زیر غور ہے، اس لئے عدالتیں سروے کی درخواستوں پر کوئی حکم جاری نہ کریں لیکن حیرانی کی بات ہے کہ حکومت کے ماتحت ادارے آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا نے سپریم کورٹ کے اس حکم کو قابل اعتناء نہیں سمجھا اور کمال مولیٰ مسجد میں کھدائی کا کام جاری رکھا۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ آر کیالوجیکل سروے آف انڈیا ایک غیرجانبدارادارے کے بجائے دائیں بازو کے ایک ونگ کے طور پر کام کررہاہے۔ گزشتہ سال ایودھیا کی طرز پردائیں بازو کے لیڈروں اشوک جین اور گوپال شرمانے کمال مولیٰ مسجد میں مورتی ’پرکٹ ‘ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اس کو ایستادہ نہ کرنے دینے پر احتجاج کی دھمکی دی تھی۔ حالانکہ بعد میں پولیس نے مسجد سے مورتی کو باہر نکال دیاتھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK