سابق وزیراعلیٰ نے اجیت پوار کو وہ فائل کھول کر دکھائی تھی جس میں ان کے( اجیت کے) خلاف جانچ کا حکم دیا گیا تھا، یہ اپنے آپ میں قانون کے خلاف بات تھی
EPAPER
Updated: October 31, 2024, 11:46 PM IST | Mumbai
سابق وزیراعلیٰ نے اجیت پوار کو وہ فائل کھول کر دکھائی تھی جس میں ان کے( اجیت کے) خلاف جانچ کا حکم دیا گیا تھا، یہ اپنے آپ میں قانون کے خلاف بات تھی
ایک روز قبل اجیت پوار نے سانگلی کے تاس گائوں اسمبلی حلقے میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے اوپر ۷۰؍ ہزار کروڑ روپے کے سینچائی گھوٹالے کا جو الزام لگا ہے اس کی جانچ کا حکم انہی کی پارٹی کے وزیر داخلہ آر آر پاٹل نے دیا تھا۔ اس طرح آر آر پاٹل نے ان کے پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا۔ اجیت پوار کے اس بیان پر چار سو تنقیدیں ہو رہی ہیں۔ خاص کر اس لئے کہ آر آر پاٹل کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ۹؍ سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے۔ ایک ایسا شخص جو دنیا میں نہیں ہے اس پر اس طرح کا الزام ایک غیر مہذب حرکت ہے۔ مگر مذکورہ سینچائی گھوٹالے پر کام کرنے والے صحافیوں نے اس نکتے پر سوال اٹھایا ہے کہ آخر دیویندر فرنویس نے اجیت پوار کو وہ فائل کھول کر کیوںبتائی جس میں اجیت پوار ہی کے خلاف جانچ کا حکم دیا گیا تھا؟ جبکہ ایسا کرنا آئین کی رو سے اپنے آپ میں ایک جرم ہے۔
یاد رہے کہ اجیت پوار نے کہا تھا کہ جب دیویندر فرنویس ۲۰۱۴ء میں وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے اپنے گھر بلا کر وہ فائل دکھائی جس میں ان کے خلاف جانچ کا حکم تھا۔ دیویندر فرنویس نے اجیت پوار کو بتایا کہ ان کے خلاف جانچ کا حکم انہی کی پارٹی کے وزیر داخلہ آر آر پاٹل نے دیا تھا۔ انہوں نے فائل میں آر آر پاٹل کے دستخط بھی اجیت پوار کو دکھائے۔ اجیت پوار نے اپنی دانست میں یہ الزام آر آر پاٹل کو (بعد از مرگ) بدنام کرنے کیلئے لگایا تھا کہ لوگ تاس گائوں حلقے میں ان کے بیٹے روہت پاٹل کو لوگ ووٹ نہ دیں لیکن ایسا کرکے انہوں نے وہ راز بھی کھول دیئے جو اب تک پوشیدہ تھے۔ ان کے اس بیان پر کئی لوگوں نے سوال اٹھائے ہیں۔
سینئر صحافی نکھل واگلے نے اپنے ویڈیو پروگرام میں اس بات پر اجیت پوار کی سخت مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آر آر پاٹل نے اپنی ہی پارٹی کے ایک لیڈر کے خلاف جانچ کا حکم دیا تھا تو یہ ان کی ایمانداری کا ثبوت ہے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے ایک ایسے لیڈر پر کارروائی کا حکم دیا جو خود ایک اہم عہدے پر تھا اور ان کی پارٹی کے سربراہ کا بھتیجا تھا۔ اس کیلئے ہمت درکار تھی۔ واگلے نے سوال اٹھایا ’’ اس کے برعکس دیویندر فرنویس جب وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے اجیت پوار کو بلا کر وہ فائل کھول کر دکھائی حالانکہ بطور وزیراعلیٰ انہوں نے حلف اٹھایا تھا کہ وہ سرکاری کاموں میں رازداری برتیں گے۔ فرنویس کا ایک حساس معاملے میں سرکاری فائل کھول کر اجیت پوار کو دکھانا راز داری کے حلف کی خلاف ورزی تھی۔
ایک اور صحافی آشیش جادھو جنہوں نے سینچائی گھوٹالے کی باقاعدہ رپورٹنگ کی تھی، ان کا کہنا ہے کہ اجیت پوار کے خلاف جانچ مختلف کمیٹیوں کی رپورٹ کے بعد دیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ودربھ میں پانی نہیں تھا جس اور وہاں سے نکلنے والی ندیاں مراٹھواڑہ تک جاتی تھیں لیکن انہیں پانی نہیں ملتا تھا کیونکہ وہاں کوئی ڈیم وغیرہ نہیں تھا۔ اس کیلئے بار بار احتجاج کیا جارہا تھا۔ جبکہ سرکاری فائلوں میں آب رسانی پر صرف کی جانے والی رقم بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ اسی معاملے پر کانگریس کے وجے وڈیٹیوار جو اس وقت رکن اسمبلی تھے ، انہوں نے ناگپور کے سرمائی اجلاس میں آواز اٹھائی تھی کہ سینچائی گھوٹالے کی سی بی آئی جانچ کی جائے۔ آشیش جادھو کے مطابق وجے وڈیٹیوار یہ آواز اس لئے اٹھا رہے تھے کہ اس سے قبل بڈنیر کمیٹی کی رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ ۲۰۰۷ء تا ۲۰۰۹ء سینچائی پر جو رقم خرچ کی گئی ہے اس میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہوئی ہے۔ جتنی رقم خرچ کی گئی ہے، آب رسانی کا اتنا کام نہیں ہوا ہے۔ جب چاروں طرف سے دبائو بڑھنے لگا اور بی جے پی نے سینچائی گھوٹالے کو ایک موضوع بنالیا تو آر آر پاٹل کو اس جانچ کا حکم دینا ہی پڑا کیونکہ جس دور میں بدعنوانی ہوئی تھی اس دور میں اجیت پوار وزیر برائے آب رسانی تھے اس لئے اجیت پوار کی انکوائری لازمی تھی۔
آر ٹی آئی کے ذریعے فائل منگوائی جا سکتی ہے
حالانکہ اس معاملے پر خود دیویندر فرنویس کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوئی راز کی بات اجیت پوار کو نہیں بتائی ہے کیونکہ وہ فائل کو ئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ ایک انٹرویو کے دوران نائب وزیر اعلیٰ نے کہا ’’ اگر آپ چاہیں تو آر ٹی آئی کے ذریعے وہ فائل منگوا کر دیکھ سکتے ہیں۔ میں نے صرف اتنا کہا ہے کہ اجیت پوار کے خلاف جانچ کا حکم سب سے پہلے کانگریس حکومت نے دیا تھا۔ یاد رہے کہ ۲۰۱۴ء کے بعد ہی سے اجیت پوار اور این سی پی کا جھکائو بی جے پی کی طرف ہونے لگا تھا۔ فرنویس نے گھر بلا کر اجیت پوار کو وہ فائل دکھائی اس کا مطلب ہے کہ اجیت پوار شروع سے بی جے پی کے رابطے میں تھے۔ اور ا