کرلا بس حادثہ کے بعد جاری کی گئی فہرست میں حادثہ کے کسی متاثر کا نام ہی غلط لکھا تھا تو کسی کے املے میں غلطی تھی جس سے معاوضہ ملنے یا مستقبل میں پریشانی پیش آ سکتی ہے
EPAPER
Updated: December 14, 2024, 4:13 PM IST | Shahab Ansari | Mumbai
کرلا بس حادثہ کے بعد جاری کی گئی فہرست میں حادثہ کے کسی متاثر کا نام ہی غلط لکھا تھا تو کسی کے املے میں غلطی تھی جس سے معاوضہ ملنے یا مستقبل میں پریشانی پیش آ سکتی ہے
کرلا مارکیٹ میں ۹؍ دسمبر کو بیسٹ کی بس بے قابو ہونے سے بھیانک سڑک حادثہ ہوگیا تھا جس میں ۷؍ افراد کا انتقال ہوگیا جبکہ دیگر ۴۲؍ لوگ زخمی ہوگئے تھے۔ اس رنج و غم اور پریشانی کے عالم میں بھی متاثرین کے اہلِ خانہ کو اپنے متوفین اور زخمیوں کے سرکاری دستاویز میں ناموں اور دیگر تفصیلات کے صحیح اندراج کیلئےجدو جہد کرنی پڑی۔ کرلا (مغرب) ہلائو پُل علاقے میں بلال مسجد کے قریب رہائش پذیر ۲۴؍ سالہ عرفان انصاری نے انقلاب کو بتایا کہ حادثہ کے بعد جب وہ اپنے والد اسلام نظام انصاری (۴۸)کی تلاش میں بھابھا اسپتال پہنچے تو انہیں بتایا گیا تھا کہ کسی رحمت انصاری کا انتقال ہوا ہے۔ اس پر انہیں لگا کہ کسی دیگر شخص کی بات ہورہی ہے تاہم جب انہوں نے اسپتال کے عملہ کو اپنے والد کی تصویر دکھائی تو انہیں بتایا گیا ہے کہ انتقال تو انہی کا ہوا ہے لیکن مہلوکین کی فہرست میں ان کا نام رحمت درج ہے۔ عرفان نے بتایا کہ اپنے والد کی نعش کی شناخت کے بعد انہوں نے آگے کی تمام کارروائیوں کے دوران دستاویز میں اپنے والد کا نام اسلام ہی درج کروایا ہے۔ لیکن ابتداء میں جو فہرست جاری کی گئی تھی اس میں ان کے والد کا نام رحمت ہی درج ہے۔ عرفان کے مطابق آج کل دستاویز کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور دستاویز میں نام غلط درج ہونے پر مستقبل میں کوئی پریشانی پیش آسکتی ہے اس لئے انہوں نے دھیان سے تمام دستاویز میں صحیح نام لکھوایا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح کے معاملات میں اگر کسی کی شناخت نہیں ہوپاتی تو اس کے ریکارڈ میں نامعلوم ہی لکھا جاتا ہے۔ جب والد کا نام اسلام ہے اور اگر اسپتال کا عملہ یا پولیس ان کی شناخت نہیں کرسکی تھی تو کوئی غلط نام دے دینے کا کیا مطلب ہے۔ اسی طرح سائن اسپتال میں زیرعلاج فضل الرحمٰن کے فرزند مفیض نے بتایا کہ زخمیوں کی جو فہرست جاری کی گئی تھی اس میں ان کے والد کا نام بالکل غلط لکھا ہوا تھا اور فہرست میں پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ والدہ کا نام درج ہے یا نہیں۔ البتہ بعد میں اسپتال میں جو بھی دستاویز بنائے گئے ان میں سب جگہ ان کا نام درست کروایا گیا۔ زخمیوں کی فہرست پرنظر ڈالنے پر بھی کئی ناموں میں غلطی نظر آئی مثلاً کنیز فاطمہ انصاری کا نام فہرست میں کنّیس انصاری لکھا ہے، ۴؍ سالہ مشکوٰۃ کا نام موسکات اور فضل الرحمٰن کو فجلو ریلیم لکھا ہوا ہے۔ ان کے علاوہ بھی چند ناموں میں غلطی نظر آرہی ہے۔ سماجی رضاکار ایڈوکیٹ سید دانش نے سائن اسپتال میں اس نمائندے سے گفتگو کے دوران کہا کہ حادثہ کے متاثرین کے رشتہ داروں کو چاہئے کہ وہ تمام دستاویز میں متاثرین کے نام اور املے صحیح ہونے کا خاص خیال رکھیں کیونکہ نام غلط تحریر ہونے کی صورت میں معاوضہ ملنے میں بھی دشواری ہو سکتی ہے یا مستقبل میں کوئی دیگر پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ زخمیوں کیلئے معاوضہ کا اعلان تو نہیں کیا گیا ہے لیکن اصولاً ’موٹر ایکسیڈنٹ ٹریبیونل‘ سے سڑک حادثہ کے متاثرین کو انشورنس کی رقم ملتی ہے لیکن ٹریبیونل میں کبھی کبھار فیصلہ آنے میں برسوں لگ جاتے ہیں اور ایسے میں اگر دستاویز میں نام صحیح درج نہ ہو تو اس بات کا خدشہ رہتا ہے کہ انشورنس کمپنی اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے تاکہ انشورنس کی رقم ادا نہ کرنی پڑے اس لئے تمام دستاویز میں نام کا صحیح اندراج ضروری ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ پیر کی رات بیسٹ کی ایک بس انتہائی تیز رفتار سے کرلا مارکیٹ میں گھس گئی تھی جس کے سبب متعدد گاڑیوں کو نقصان پہنچا اور ۳؍ خواتین سمیت ۷؍ افراد کا اس حادثہ میں انتقال ہو گیا اور دیگر ۴۲؍ لوگ زخمی ہوگئے تھے۔ حادثہ کے وقت اس بس کو سنجے مورے چلا رہا تھا جو جائے حادثہ سے فرار ہوگیا تھا اور بعد میں اس کی گرفتاری عمل میں آئی۔ اسے کرلا مجسٹریٹ کورٹ نے ۲۱؍ دسمبر تک کیلئے پولیس کی تحویل میں بھیج دیا ہے۔