• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

غزہ میں زائد اَز ایک لاکھ ۸۶؍ ہزار اموات کا اندیشہ

Updated: July 09, 2024, 10:49 AM IST | Agency | Gaza

بین الاقوامی طبی رسالہ’لانسیٹ‘ نے چونکا دینےوالے اعدادوشمار پیش کئے، نشاندہی کی کہ جنگ کی ہلاکتیں صرف وہ نہیں ہیں جو براہ راست حملوں سے ہوں۔

There is also a voice against the war in Israel. Citizens protesting against Netanyahu in Tel Aviv are calling for a ceasefire. Photo: INN
اسرائیل میں بھی جنگ کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے۔ تل ابیب میں نیتن یاہوکے خلاف احتجاج میں شہری جنگ بندی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ تصویر : آئی این این

بین الاقوامی سطح پر انتہائی  معتبر شمارکئےجانےوالے طبی رسالہ ’لانسیٹ‘ نے غزہ پرگزشتہ ۹؍ ماہ سےجاری اسرائیلی حملوں میں اموات کی حقیقی تعداد ایک لاکھ ۸۶؍ ہزار سے زائد ہونے کا تخمینہ پیش کیا ہے۔ بین الاقوامی رسالہ  نے نشاندہی کی ہے کہ جنگ میں ہلاکتیں صرف ہو نہیں ہوتیں جو حملوں کی زد میں آکر براہ راست ہوتی ہیں بلکہ ان اموات کو بھی شمار کیا جانا چاہئے جو جنگ  کی وجہ سے پیداشدہ حالات کی بنا پر ہوتی ہیں۔ 
حقیقی اموات ریکارڈ شدہ اموات سے زیادہ
 غزہ کی وزارت صحت  نے ۷؍ اکتوبر کے بعد سے پیر ۸؍ جون تک غزہ میں  اسرائیلی حملوں  میں  ۳۸؍ ہزار ۱۹۳؍ افراد کے جاں بحق اور ۱۰؍ ہزار سے زائد کے  لاپتہ ہونے کی تصدیق کی ہے۔اس کے مطابق حملوں میں تقریباً ۸۸؍ ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم لانسیٹ کے تحقیقی مطالعہ کے مطابق   اموات کی حقیقی تعداد زیادہ ہے کیوں کہ اس میں  وہ ہزاروں افراد شامل نہیں ہیں جو ملبے میں دب کررہ گئے، جو طبی سہولیات  کے تباہ ہوجانے کی وجہ سے مر گئے یا جن کی موت جنگ کی بنا پر غذا کی فراہمی متاثر ہونے یا عوامی  انفرااسٹرکچر کے دیگر مسائل کی وجہ سے ہوئی ہے۔ 
براہ راست کے ساتھ بالواسطہ اموات
لانسیٹ کی اسٹڈی میں کہاگیا ہے کہ اس طرح  کے تنازعات  میں تشدد کے اثرسے  بالواسطہ اموات بھی بڑی تعداد میں ہوتی ہیں۔ اس کے مطابق اگر غزہ جنگ فوری طور پر بند بھی ہوجائے تب بھی اس کی وجہ سے ہونےوالے اموات کا سلسلہ  آنے والے کئی مہینوں اور  برسوں تک جاری رہےگا جوجنگ کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں، وسائل کی کمی اور دیگر وجوہات کا نتیجہ ہوں گی۔ 
’لانسیٹ‘ نے   غزہ  کے انفرا اسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ’’غزہ میں جس بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوا ہےاس کی بنا پر  اموات کی تعداد کہیں زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ ‘‘ رپورٹ میں  نشاندہی کی گئی ہے کہ غذا کی قلت،  پانی کی عدم دستیابی اور رہائش کی کمی  کے ساتھ ہی ساتھ فلسطین کیلئے امدادی کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشن ریلیف اینڈ ورک ایجنسی (اُنروا) کے فنڈ میں کمی آرہی ہےجس کا اثر براہ راست جنگ سے متاثرہ عام شہریوں کی زندگیوں پر پڑے گا۔   
بالواسطہ اموات ۱۵؍ گنازیادہ ہوسکتی ہیں
 ’لانسیٹ‘ طبی شعبے سے وابستہ افراد کی عالمی میگزین ہے جو ہر ہفتے شائع ہوتی ہے۔ یہ اپنے طرز کی سب سے پرانی میگزین ہے جس میں طبی محاذ پر ہونےو الے کاموں اور تحقیقات کو شائع کیا جاتا ہے اور دنیا بھر کے ڈاکٹرس اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ غزہ جنگ پر اپنی تحقیقی رپورٹ میں  ’لانسیٹ‘ نے نشاندہی کی ہے کہ ’’حالیہ تنازعات میں  دیکھا گیاہے کہ حملوں کی وجہ سے براہ راست اموات کے مقابلے  بالواسطہ اموات کی تعداد ۱۵؍ گنا  سے بھی زائد ہوتی ہے۔ ‘‘ادارہ نے غزہ  کے معاملے میں  صرف ۴؍ گنا بالواسطہ اموات کا تخمینہ لگایاہے۔  اس کے مطابق ہر  براہ راست موت کے ساتھ ۴؍بالواسطہ اموات کے’’قدامت پسندانہ تخمینہ‘‘ کو بنیاد بنائیں تب بھی ’’یہ اندازہ ناقابل فہم نہیں ہے کہ غزہ جنگ سے  ایک لاکھ ۸۶؍ ہزار یا اس سے بھی زیادہ اموات ہو سکتی ہیں۔‘‘
غزہ کی ۸؍ فیصد آبادی جنگ میں جاں بحق
 غزہ پر اسرائیلی حملے شروع ہونے سے قبل  وہاں کی آبادی ۲۳؍ لاکھ تھی۔اس لحاظ سے ’لانسیٹ‘ کی تحقیق کے مطابق اسرائیلی حملوں میں غزہ کے ۸؍ فیصد شہری جاں بحق ہوجائیں گے۔  لانسیٹ کے مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس سروسیز، اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ صحت سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ فلسطینی حکام کے خلاف غزہ میں اموات کی تعداد سے متعلق اعداد وشمار کےمن گھڑت ہونے کا الزام ’’ناقابلِ فہم‘‘ ہے۔ 
 لانسیٹ کی تحقیقی رپورٹ میں یہ بھی  نشاندہی کی گئی ہےکہ اسرائیلی حملوں سے غزہ میں بنیادی ڈھانچے کی تباہی کو دیکھتے ہوئے اموات کےبہت زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ اسرائیل پر غزہ میں فلسطینی  افراد کی نسل کشی کے الزامات کے بیچ بین الاقوامی طبی رسالہ نے بھی کہا ہے کہ ’’ غزہ میں جو کچھ بھی ہواہے کہ اس  کے تاریخی احتساب کیلئے ضروری ہے کہ جنگ میں ہونے والےحقیقی نقصان کا بھر پور اعتراف کیا جائے۔  یہ قانونی تقاضہ بھی ہے۔‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK