• Sun, 22 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

موربی حادثہ میں بالآخر کوتاہی کا اعتراف

Updated: November 17, 2022, 10:13 AM IST | ahmedabad

گجرات ہائی کورٹ کے سخت رویہ کی وجہ سے موربی انتظامیہ کو یہ بات تسلیم کرنی پڑی کہ پُل خستہ حال ہو چکا تھا اس کے باوجود اس پر آمد و رفت جاری تھی ، حلف نامہ نہ دینے پر چیف جسٹس نے انتظامیہ کو ایک لاکھ روپے کے جرمانہ کی وارننگ دی تھی

The Morbi disaster caused chaos but local fishermen saved many lives with their boats.
موربی حادثے کی وجہ سے افراتفری مچ گئی تھی لیکن مقامی ماہی گیروں نے اپنی کشتیوں کی مدد سے کئی جانیں بچائیں

گجرات ہائی کورٹ نے موربی حادثہ پر جہاں گزشتہ روز  سرکاری نا اہلی کی پول کھولتے ہوئے شہری انتظامیہ اور ریاستی حکومت پر سوالوں کی بوچھار کردی تھی ، بدھ کو سماعت کے دوران  ایک مرتبہ پھر سخت ترین رویہ اپناتے ہوئے موربی میونسپل کارپوریشن کی کلاس لے لی اور یہاں تک کہہ دیا کہ اگر  چند گھنٹوں میں کارپوریشن کی جانب سے حلف نامہ داخل نہیں کیا جاتا ہے تو اس پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کردیا جائے گا۔ 
ہائی کورٹ کی ناراضگی 
 موربی حادثے میں انتظامیہ کے ڈھلمل اور لاپروائی بھرے رویہ کی وجہ سے بدھ کو ایک مرتبہ پھر ہائی کورٹ  موربی میونسپل کارپوریشن (ایم ایم سی) سے ناراض نظر آیا۔ گجرات ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اروند کمار اور جسٹس آشوتوش شاستری کی بنچ نے  ایم ایم سی کے ذریعہ موربی  سانحہ کو ہلکے میں لینے پر سخت الفاظ میں متنبہ کیا ہے۔ دراصل ہائی کورٹ کے دو نوٹسوں کے باوجود ایم ایم سی نے اپنی جانب سے اسٹیٹس  رپورٹ داخل  نہیں کی تھی جس پرہائی کورٹ نے شدید برہمی ظاہر کی ۔ ہائی کورٹ نے اس تعلق سے کہا کہ گزشتہ روز آپ اسمارٹ طریقے سے کام کر رہے تھے، اب آپ معاملے کو ہلکے میں لے رہے ہیں۔ اس  لئےیا تو آج شام تک اپنا جواب داخل کیجیے، یا ایک لاکھ روپے کا جرمانہ ادا کیجیے۔‘‘
موربی انتظامیہ کو حلف نامہ دینا ہی پڑا 
 ہائی کورٹ کے اتنے سخت رویے کی وجہ سے موربی انتظامیہ کو حلف نامہ داخل کرنا ہی پڑا۔ موربی انتظامیہ کے وکیل دیوانگ ویاس نے حلف نامہ داخل کرتے ہوئے عدالت سے معافی بھی مانگی اور کہا کہ آگے اس طرح کی کوئی لاپروائی یا غلطی نہیں ہو گی۔
حلف نامہ میں کیا ہے ؟
 موربی انتظامیہ نے جو حلف نامہ داخل کیا ہے اس میں اس بات کا واضح طور پر اعتراف کیا ہے کہ موربی میں حادثے کا شکار ہونے والا پُل خستہ حال ہو چکا تھا اس کے باوجود تقریباً ۴؍ ماہ تک اس پر آمد و رفت جاری تھی اور مارچ میں اسے مرمت کے لئے بند کردیا گیا تھا ۔ جب اس کی مرمت مکمل ہوئی تو اس کے تعلق سے اجنتا کمپنی نے مزید کوئی اجازت لئے بغیر اور فٹ نس سرٹیفکیٹ لئے بغیر اسے عوام کے لئے کھول دیا۔ حالانکہ موربی انتظامیہ نے یہ اعتراف کیا کہ اس  حادثے سے قبل کئی ماہ تک اجنتا کمپنی نے  بغیر کسی معاہدے اور معاوضے کے اس پُل کی دیکھ ریکھ کی ہے او ر اسے ہی ۲۰۱۷ء میں مزید کئی برس کے لئے پُل کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری سونپی گئی تھی ۔ انتظامیہ نے  بتایا کہ اجنتا کمپنی نے شہری انتظامیہ کو پُل کی خستہ حالی کی اطلاع دی تھی ۔
انتظامیہ کے جواب پر برہمی 
  اس تعلق سے ایم ایم سی کے وکیل نے عدالت میں اپنے جواب میں بتایا کہ ایم ایم سی انچارج اور ڈپٹی کلکٹر انتخابی ڈیوٹی پر ہیں اس وجہ سے عدالت کے سامنے پیش ہونے میں تاخیر ہوئی۔ یہ سن کر ہائی کورٹ بہت ناراض ہوا۔ ہائی کورٹ نے پوچھا تھا کہ۲۰۱۶ء میں ٹینڈر ختم ہونے کے بعد بھی بریج کا نیا ٹینڈر کیوں جاری نہیں کیا گیا؟ چیف جسٹس اروند کمار نے سماعت کے دوران ریاست کے سرکردہ نوکرشاہ یعنی چیف سیکریٹری سے کچھ تلخ سوالات  کئے۔ انہوں نے پوچھا تھا کہ  پبلک پل کی مرمت کے کام کا ٹینڈر  کیوں نہیں نکالا گیا؟ بولیاں کیوں طلب نہیں کی گئیں؟ عدالت نے ساتھ ہی یہ بھی سوال کیا تھا کہ اتنے اہم کام کے لیے ایک سمجھوتہ محض ڈیڑھ صفحہ میں کیسے پورا ہو گیا؟
عدالت کے مزید احکامات 
 چیف جسٹس نے حلف نامہ پڑھنے کے بعد مزید سوالات قائم کئے اور موربی انتظامیہ کو حال ہی میں اجنتا کمپنی سے کئے گئے معاہدے کی تمام تفصیلات عدالت کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت دی۔ ساتھ ہی وہ تمام دستاویزات پیش کرنے کی ہدایت دی جن سے واضح ہوسکے کہ اجنتا کمپنی نے پُل کی خستہ حالی کے بارے میں  انتظامیہ کو اطلاع دی تھی ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK