ایک پولیس افسر کی شکایت پر معاملہ درج کیاگیا ،دوسری طرف خواتین وکیلوںنے چیف جسٹس کو خط لکھ کرمسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی اپیل کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کی اپیل کی
EPAPER
Updated: August 18, 2023, 9:44 AM IST | palwal
ایک پولیس افسر کی شکایت پر معاملہ درج کیاگیا ،دوسری طرف خواتین وکیلوںنے چیف جسٹس کو خط لکھ کرمسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی اپیل کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کی اپیل کی
پولیس نے ہریانہ کے پلول میں۱۳؍ اگست کو `سرو ہندو سماج کی مہاپنچایت میں اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی ہے۔ایف آئی آر پروبیشنرسب انسپکٹر (پی ایس آئی) سچن کی شکایت کی بنیاد پر درج کی گئی۔ سچن نے الزام لگایا کہ پونڈری گاؤں میں منعقدہ مہا پنچایت میں کچھ لوگوں نے اپنی تقریروں میں ایک فرقےکے خلاف اشتعال انگیز الفاظ استعمال کئے تھے ۔پولیس نے بتایا کہ پیر کو ہاتھن پولیس اسٹیشن میں آئی پی سی کی دفعہ۱۵۳؍ اے (مختلف فرقوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) اور۵۰۵؍ ( فساد پھیلانے والے بیانات) کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی۔ایس ایچ او منوج کمار نے کہا ہےکہ ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے اور قصوررواروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
واضح رہےکہ اس مہا پنچایت میں یہ اعلان بھی کیاگیا تھا کہ ہندوتوا تنظیموں کے ذریعے ۲۸؍ ا گست سےنوح میں وی ایچ پی کی برج منڈل یاتراکو دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا جسے جولائی میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد روک دیا گیا تھا۔ اس نے کئی مطالبات بھی کیے جن میں۳۱؍ جولائی کو نوح میں وی ایچ پی یاترا پر حملے کی این آئی اے سے تحقیقات کرانے اور نوح کو’ گئو کشی سے پاک‘ ضلع قرار دینے جیسے مطالبات شامل تھے ۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کچھ بھگوا لیڈروں نے یہ بھی کہا تھا کہ مسلم اکثریتی ضلع نوح میں ہندوؤں کو اپنے دفاع کے لیے اسلحہ لائسنس حاصل کرنے میں نرمی دی جائے۔
دہلی کی خاتون وکیلوں کا چیف جسٹس کو خط
ادھر دوسری جانب دہلی ہائی کورٹ کی خاتون وکیلوں نے چیف جسٹس آف انڈیا کے نام ایک خط لکھا ہےکہ جس میںنوح میں ایک ویڈیو کے ذریعے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی اپیل کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کی اپیل کی ہے۔ ویمن لائرز فورم نے چیف جسٹس ڈی وائے چندرچڈ کو خط کی شکل میں پٹیشن دی ہے۔خواتین وکلاءنے اپنے خط میں درخواست کی ہےکہ ہریانہ حکومت کو نفرت پھیلانے والے ویڈیو کو نشان زد کر نے اور اس سے متعلقہ عناصر کے خلاف فوری کارروائی کی ہدایت دی جائے ۔
پٹیشن پر۱۰۱؍ خواتین کے دستخط
پٹیشن پر۱۰۱؍ خواتین وکلاءکے دستخط ہیں جن میں ان ویڈیوز کی شناخت کرکے اور ان پر پابندی لگانے کی استدعا کی گئی ہے۔اس کے علاوہ ایسے سبھی ویڈیوز کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے جن میں کسی فرقے، عبادتگاہوں کو نقصان پہنچانے یا معاشی بائیکاٹ کی دھمکیاں ہوتی ہیں۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ خواتین، ماؤں اور عدالت کے کام سے وابستہ ہونے کے ناطے ہم فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قانون کی حکمرانی سے مضبوط وابستگی میں یقین رکھتی ہیں۔جسٹس چندر چڈ کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ہریانہ کے نوح علاقے میں حالیہ واقعات کے پیش نظر سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تقاریر اور ہدف بناکرتشدد بھڑکانے والے ویڈیوز کے سامنے آنے سے سنگین تشویش پیدا ہوئی ہے جو معاشرے کے امن اور ہم آہنگی کیلئے خطرہ بن رہے ہیں۔خواتین وکلاءنے اپنی عرضی میں کہا’’ہم، دہلی اور گڑگاؤں میں رہنے والی قانونی برادری اور دہلی ہائی کورٹ ویمنس لائرز فورم کے اراکین کے طور پرہم اس خط کے ذریعےیہ معاملہ آپ کے نوٹس میں لانے کیلئے آپ سے رابطہ کیا ہےکہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تقریریں پھیلائی جا رہی ہیں۔درخواست میں’شاہین عبداللہ بنام حکومت ہند‘معاملے میں۱۱؍ اگست ۲۰۲۳ء کوعدالت عظمی کے تبصرہ کا حوالہ دیا گیا کہ فرقوں کے درمیان ہم آہنگی اور ہمدردی ہونی چاہئے اور نوح میں حالیہ فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلم کمیونٹی کے بائیکاٹ کی اپیل کا مطالبہ’ ناقابل قبول‘ تھا۔واضح رہے کہ اس کیس میںشاہین عبداللہ نامی صحافی نے اپنی عرضی میںنفرت انگیز تقریروں سے متعلق ہدایات جاری کرنے کی عدالت سے درخواست کی تھی۔ درخواست میںتحسین پونا والا بنام حکومت ہندکے کیس کا حوالہ بھی دیاگیا ہے جس میںسپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ہجومی غنڈہ گردی اور تشد د کو روکنے کیلئے ریاستی حکومتوںکو اقدام کرنا چاہئے ۔