چوطرفہ تنقیدوں کےبعد مراد آباد پولیس اپنے قدم پیچھے لینے پڑے، اعتراف کیا کہ کسی جرم کا ارتکاب نہیں ہوا، گاؤں کا ماحول خراب ہونے کا الزام بھی غلط ثابت ہوا
EPAPER
Updated: August 31, 2022, 11:15 AM IST | muradabad
چوطرفہ تنقیدوں کےبعد مراد آباد پولیس اپنے قدم پیچھے لینے پڑے، اعتراف کیا کہ کسی جرم کا ارتکاب نہیں ہوا، گاؤں کا ماحول خراب ہونے کا الزام بھی غلط ثابت ہوا
گھر میں ادا کی جارہی باجماعت نماز کے خلاف اکثریتی فرقہ کے چند شدت پسند عناصر کی شکایت پر پولیس کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر میں بالآخر پولیس اور مذکورہ شدت پسند عناصر کو ہی منہ کی کھانی پڑی۔ چوطرفہ تنقیدوں کے بعدخود پولیس نے اس معاملے میں ایف آئی آر کو منسوخ کرتے ہوئے اطلاع دی کہ اسے اپنی تفتیش میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں ملا ہے اس لئے کیس ختم کیا جارہا ہے۔
پولیس نے مرادآباد ضلع کے چھج لیٹ علاقے کے دلے پور گاؤں میں کھلی جگہ پر نماز پڑھنے کے الزام میں ۲۶؍ افراد کے خلاف کیس درج کیا تھا جن میں سے ۱۶؍ افراد کو نامزد کیاگیاتھا۔ کیس کے اندراج کے بعد گرفتاری کے ڈر سے گاؤں کے مسلمانوں کو فرار ہونا پڑ گیاتھا۔
پولیس کیا س حرکت پر شدید تنقیدیں ہوئیں اور یہ معاملہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی جگہ پاگیا۔اس دوران یہ سوال بھی اٹھنے لگا کہ کیا مسلمانوں کو اب اپنے گھر کے اندر بھی نماز ادا کرنے کیلئے پولیس کی اجازت لینی پڑے گی۔ مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی سمیت کئی لیڈروں نے یوپی پولیس کو اس سلسلے میں تنقیدوں کا نشانہ بنایا۔ اویسی نے ٹویٹر پر وزیراعظم مودی کو ٹیگ کرکے سوال کیاتھا کہ کیا اب مسلمانوں کو گھروں پر نماز کی ادائیگی کیلئے بھی پولیس اور انتظامیہ سے پیشگی اجازت لینی پڑے گی۔ منگل کو مراد آباد پولیس نے اعلان کیا کہ وہ ایف آئی آر کو منسوخ کررہی ہے۔ اپنے قدم پیچھے ہٹانے پر مجبور ہونے والی مراد آباد پولیس نے ویڈیو جاری کرکے کہا ہے کہ اس معاملے میں کسی جرم کا ارتکاب نہیں ہوا ہے۔ ایک بنیادی الزام جو شدت پسند شکایت کنندگان نےلگایاتھا وہ یہ تھا کہ اجتماعی نماز کی وجہ سے گاؤں کا ماحول خراب ہورہاہے اوراس کا مقصد نفرت پھیلانا ہے۔ پولیس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ الزام بے بنیاد ہےا ور گاؤں کا ماحول خراب نہیں ہوا ہے۔
بہرحال اس معاملے میں یوگی سرکار اوراس کی پولیس پر شدید تنقیدیں ہو رہی تھیں۔ کیس ختم کرنے کے تعلق سے پولیس نے ٹویٹ کیا کہ ’’گاؤں دھولے پور میں، مدعی چندر پال وغیرہ نے پولیس اسٹیشن چھج لیٹ میں اجتماعی نماز ادا کرنے کا مقدمہ درج کرایا تھا لیکن تحقیقات کے بعد واقعہ کی تصدیق نہیں ہوئی اور نہ یہ بات سامنے آئی کہ اس کی وجہ سے کہیں کوئی نفرت پھیلی ہے ۔‘‘
دریں اثناء مقدمے میںنامزد کئے گئے واحد سیفی نے بتایا کہ وہ اس زمین کےقانونی مالک ہیں جس پر نماز ادا کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد سے اب تک اکثر مذکورہ جگہ پر نماز پڑھی جاتی رہی ہے لیکن حال ہی میں بجرنگ دل کے کارکن ہونے کا دعویٰ کرنے والے کچھ `بدمعاش عناصر نے اسے ایک نئی روایت قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی اور شکایت درج کروائی لیکن اب پولیس نے بھی اس کی تصدیق کردی کہ نماز پڑھنے کی وجہ سےکوئی ماحول خراب نہیں ہوا ہے اور نہ کوئی معاملہ بنتا ہے۔ اسی لئے ایف آئی آر منسوخ کی گئی ہے۔ سیفی کے مطابق اس شکایت پر پولیس نے جائے وقوع کا دورہ کیا تھا اور تمام کاغذات بھی چیک کئے تھے۔ انہیں کوئی بات قابل اعتراض نہیں لگی۔ اہم بات یہ ہے کہ دھولے پور گاؤں میں کوئی مسجد نہیں ہے۔مسلمان جہاں باجماعت نماز کیلئے مسجد کی ضرورت محسوس کررہے ہیں وہیں شکایت کنندہ شر پسند عناصر نہیں چاہتے کہ گاؤں میں کسی مسجد کا قیام ہو۔ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ گھر پر باجماعت نماز پر اعتراض اور پولیس میں شکایت کا مقصد بھی یہی تھا۔