’’غیر جانبدارانہ اور صحیح جانچ‘‘ کے دعویٰ پر سوالیہ نشان، زائد از۱۲۰؍ مقدمات فیصل ہوئے مگرصرف ۲۰؍ میں جرم ثابت ہوا،ان میں بھی ۱۲؍ میں ’اقبال جرم‘کے سہارے پولیس نے مقدمہ جیتا
EPAPER
Updated: February 24, 2025, 11:26 PM IST | New Delhi
’’غیر جانبدارانہ اور صحیح جانچ‘‘ کے دعویٰ پر سوالیہ نشان، زائد از۱۲۰؍ مقدمات فیصل ہوئے مگرصرف ۲۰؍ میں جرم ثابت ہوا،ان میں بھی ۱۲؍ میں ’اقبال جرم‘کے سہارے پولیس نے مقدمہ جیتا
دہلی فساد کے ۵؍ سال بعدمقامی عدالتوں میں سنائے گئے فیصلوں نے دہلی پولیس کی ناکامی پر نہ صرف مہر لگا دی ہے بلکہ ’’غیر جانبدارانہ اور صحیح ‘‘ جانچ کے اس کے دعوؤں کی حقیقت کو بھی طشت از بام کردیا ہے۔ گزشتہ ۵؍ برسوں میںسنائے گئے فیصلوں کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں نشاندہی کی ہے کہ یکے بعد دیگرے مقدمات سے ملزمین کے بری ہونے کی وجہ سے پولیس کی جانچ پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ یاد رہے کہ ۲۰۱۹ء میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں کے تعلق سے دہلی میں کچھ اس طرح کے حالات پیدا کردیئے گئے تھے کہ فروری ۲۰۲۰ء میں فساد پھوٹ پڑے تھے۔ان فسادات میں ۵۳؍ افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ مہلوکین میں۴۰؍ مسلمان اور ۱۳؍ ہندوتھے ۔ دہلی پولیس پر الزام ہے کہ فسادمیں بھی مسلمانوں کو نشانہ بنایاگیا اور مقدموں میں بھی ان ہی کو ماخوذ کیاگیا۔ پولیس نے ۷۵۸؍ مقدمات درج کئے اور ۲؍ ہزار سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا مگر عدالت میں ثبوت پیش کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی۔
عدالتوں نے پولیس پر تنقیدکی
دہلی پولیس پر الزام ہے کہ فساد کے اصل ملزمین کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے بجائے پولیس نے مسلمانوں کو ہی مقدمات میں ماخوذ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عدالتوں میں ثبوت پیش نہیں کرسکی۔ بی بی سی نے اب تک جن مقدمات کے فیصلے ہوئے ہیں ان کا تجزیہ کرتے ہوئے کڑکڑڈوما کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو کے اس تبصرہ سے اپنی رپورٹ شروع کی ہے کہ ’’جب تاریخ دہلی فسادات پر نظر ڈالے گی تو یہ بات ضرور چبھے گی کہ جانچ ایجنسیوں نے صحیح اور سائنٹفک طریقوں کو استعمال کرکےتفتیش نہیں کی۔ یہ ناکامی جمہوریت کے محافظوں کیلئے پریشان کن ہوگی۔‘‘ ۲؍ مقدمات کی شنوائی کے دوران ونود یادو نے دہلی پولیس کی نکیل کستے ہوئے یہ سخت تبصرہ بھی کیاتھا کہ ’’جانچ ایجنسی نے عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے ۔‘‘
دہلی فساد کے معاملات کی شنوائی کے دوران دہلی پولیس کو اکثر عدالتوں میں شرمندگی اور رُسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک موقع پر عدالت نے جانچ پر سوال اٹھاتے ہوئےکہا کہ ’’جانچ صحیح طریقے سے نہیں ہوئی ہے۔‘‘ جبکہ دوسرے موقع پر کہا کہ ’’ملزم کو غلط طریقے سے پھنسایاگیا ہے۔‘‘ ایک دوسرے معاملے میں کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ’’پہلے سے طے کرلئے گئے مفروضات کی بنیاد پر چارج شیٹ تیار کی گئی ہے۔‘‘
۸۰؍ فیصد ملزمین بری
۵؍ برسوں میں مقدموں کی شنوائی کا تجزیہ کرتے ہوئے بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ’’ بہت کم مقدموں میں ملزمین کے خلاف جرم ثابت ہوپارہاہے۔ ۸۰؍ فیصد معاملوں میں جن لوگوں کو ملزم بنایاگیاہے وہ یاتو بری ہوئے ہیں یا ڈسچارج کردیئے گئے۔‘‘ ملزمین کو عدالت ڈسچارج اس وقت کرتی ہے جب پولیس کی داخل کردہ جارچ شیٹ میں ملزم کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کیلئے بھی خاطر خواہ ثبوت موجود نہ ہوں۔ اس لئے کسی بھی مقدمہ سے ملزم کا ڈسچارج کیا جانا پولیس کیلئے شرمندگی کا باعث ہوتاہے۔
پولیس کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق اپریل ۲۰۲۴ء تک ۱۹؍ معاملوں میں ماخوذ افراد کو مجرم پایاگیا۔ ۷۶؍ معاملوں میں ملزم بری اور ۱۶؍ میں ڈسچارج ہوئے۔اس کے بعد کے اعدادوشمار کڑکڑ ڈوما کورٹ کی ویب سائٹ سے حاصل کئے گئے جن کے مطابق اپریل ۲۰۲۴ء سے جنوری ۲۰۲۵ء تک ۱۸؍ مقدموں میں ملزمین بری ہوئے اورایک میں جرم ثابت ہوا۔
پولیس کی ناکامی کا ثبوت
گزشتہ ۵؍ برسوں میں عدالتوں نے دہلی فساد کے ۱۲۰؍ سے زیادہ مقدمات کے فیصلے سنائے۔ پولیس شواہد پیش کرنے میں کس قدر ناکام رہی ،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ ان میں سے صرف ۲۰؍ مقدمات میں جرم ثابت ہوئے۔ان میں سے بھی ۱۲؍ معاملات میں چونکہ ملزمین نے ’’اقبال جرم‘‘ کرلیاتھا اس لئے خاطر خواہ ثبوت نہ ہونے پر بھی انہیں مجرم قرار دیا جا سکا۔ اسےاس پس منظر میں دیکھا جارہاہے کہ پولیس نے فساد کے اصل ملزمین کو بچانے کیلئے بے قصور افراد کو جو اکثر اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں، ماخوذ کردیا، چونکہ وہ مجرم نہیں تھے اس لئے پولیس خاطر خواہ ثبوت فراہم نہیں کرسکی اس لئے وہ مقدمہ سے بری ہوگئے اس طرح جو اصل مجرم تھے وہ کٹہرے تک بھی نہیں پہنچے۔
مقدموں کی صورتحال
دہلی فساد کے ۵؍ سال بعد بھی متاثرین کی ایک بڑی تعداد انصاف کی منتظر ہے۔ فساد کے تعلق سے جو ۷۵۸؍ مقدمے درج کئے گئے ان میں سے ۲۸۹؍ مقدمات کی جانچ تک مکمل نہیں ہوسکی ہے، ۲۹۶؍ عدالتوں میں زیر التوا ہیں اور ۱۷۳؍ کے یاتو فیصلے آچکے ہیں یا پھر انہیں عدالتیں خارج کرچکی ہیں۔
وسیع تر سازش کا مقدمہ سماعت کا منتظر
دہلی فساد کو شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں میں شامل نوجوانوں کی سازش کا نتیجہ قرار دینے کیلئے دہلی پولیس نے ’’وسیع تر سازش‘‘ کیس تیار کیا ہے۔اس کیس میں عمر خالد، خالد سیفی، شرجیل امام ، گلفشاں فاطمہ اور میراں حیدر جیسے افراد کو ملزم بنایاگیا ہے جو شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں میں پیش پیش تھے۔ پولیس نے اس بیچ پرویش ورما، کپل مشرا اور انوراگ ٹھاکر (جو اُس وقت مرکزی وزیر بھی تھے) کی اشتعال انگیز تقاریر کو فساد سے جوڑ کردینے کی زحمت بھی نہیں کی۔اس کی وجہ سے حال ہی میں اسے کورٹ میں سرزنش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔