خنسوب جلال زئی میں سیلاب سےساڑھے ۴؍ ہزار خاندان یعنی کم از کم۲۰؍ ہزار افراد بے گھر ہوگئے ، اس گاؤں کے محمد شاہ کے مطابق ہم نے اتنی شدت کی قیامت خیز بارش اور سیلاب گزشتہ ۱۰؍ برس میں نہیں دیکھے۔ بڑی تعداد میں متاثرین امداد کے منتظر
EPAPER
Updated: July 08, 2022, 11:24 AM IST | Agency | Quetta
خنسوب جلال زئی میں سیلاب سےساڑھے ۴؍ ہزار خاندان یعنی کم از کم۲۰؍ ہزار افراد بے گھر ہوگئے ، اس گاؤں کے محمد شاہ کے مطابق ہم نے اتنی شدت کی قیامت خیز بارش اور سیلاب گزشتہ ۱۰؍ برس میں نہیں دیکھے۔ بڑی تعداد میں متاثرین امداد کے منتظر
کوئٹہ میں سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔کچھ گاؤں مٹ گئے ہیں، یہاں تک کہ ان کا نام ونشان بھی نہیں بچا ہے۔
بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے خسنوب جلال زئی میں منگل کی شب آنے والے سیلاب نے تباہی مچائی ہے۔ اس گاؤں کے محمد شاہ بتاتےہیں کہ گزشتہ دنوں سیلاب نے ہمارے پورے دیہات کو ملیا میٹ کر دیا ۔گاؤں میں کوئی ایسا گھر نہیں ہےجسے نقصان نہ ہوا ہو، پانی سب کچھ بہا لے گیا، کسی کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں بچا ہے۔ خواتین اور بچے پچھلے۲۴؍ گھنٹے سے بھوکے پیاسے ہیں۔ محمد شاہ نے بتایا کہ۴؍ فٹ اونچا سیلابی ریلا جب آبادی میں داخل ہوا تو ہر طرف چیخ پکار شروع ہو گئی، لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ کر بال بچوں کے ہمراہ مٹی کے اونچے ٹیلوں پر چڑھ گئے اور رات بھر شدید بارش میں وہیں رہے۔تیز ریلے میں کئی خواتین اور بچے بہہ گئے جن میں سے باقیوں کو تو بچا لیا لیکن خواتین اور بچوں سمیت ۴؍ افراد کی لاشیں صبح ملیں۔ ہم نے اتنی شدت کی قیامت خیز طوفانی بارش اور سیلاب گزشتہ ۱۰؍ برس میں نہیں دیکھے۔ حکام کے مطابق قلعہ سیف اللہ سے تقریباً۲۰؍ کلو میٹر دور خنسوب جلال زئی میں سیلاب سےساڑھے ۴؍ ہزار خاندان یعنی کم از کم۲۰؍ ہزار افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ قلعہ سیف اللہ کےاسسٹنٹ کمشنرلیاقت کاکڑ نے تصدیق کی کہ خسنوب جلالزئی میں ۴؍ افراد سیلاب میں بہہ کر ہلاک ہو گئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اس علاقے میں ۹۰؍ فیصد گھر مکمل یا جزوی تباہ ہوچکے ہیں اور علاقے کے باشندوں نے نقل مکانی شروع کردی ہے جبکہ پیچھے رہ جانے والوںکیلئے خیمہ بستی قائم کی گئی ہے۔علاقے میں کاشت کی گئیں فصلیں بھی مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہیں۔ زمینداروں کے ٹیوب ویلز، سولر پینلز اور زرعی مشنری کو نقصان پہنچا ہے۔ محمد شاہ نے مزید بتایا کہ پانی ابھی تک اترا نہیں ہے جس کی وجہ سے علاقہ دلدلی ہوگیا ہے اور گاڑیاں مٹی میں پھنس رہی ہیں، دور دراز کے کئی علاقوں میں اب تک امداد نہیں پہنچی ہے۔
مقامی رضا کاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت کئی کلومیٹر پیدل جا کرمتاثرین کو نکالا ہے لیکن خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں افراد اب بھی کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے امداد کے منتظر ہیں۔ جمعرات کو کوئٹہ میں رہائش پذیر قلعہ سیف اللہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے امدادی سرگرمیوں میں تاخیر کے خلاف پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا اور حکومت سے متاثرین کی فوری مدد کرنے کا مطالبہ کیا ۔اسسٹنٹ کمشنر قلعہ سیف اللہ کا کہنا ہے کہ علاقے میں خوراک کی قلت ہے۔ متاثرین کو خشک راشن فراہم کیا جا رہا ہے اور صوبائی حکومت سے مزید امداد طلب کر لی گئی ہے۔ حکام کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ ۲۴؍ گھنٹے کے دوران بارش کے جمع شدہ پانی اور سیلابی ریلوں میں ڈوبنے سے مزید۱۶؍ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس طرح گزشتہ ۳؍ دنوں کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۳۳؍ ہوگئی ہے جبکہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران پری مانسون اور مانسون میں اب تک۴۸؍ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ٍ بلوچستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے نصیر احمد ناصر نے ۴۵؍افر اد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے جبکہ لاکھوں افراد بارش سے متاثر ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طویل عرصے بعد بلوچستان میں اس شدت کی بارش ہوئی ہے جن سے جانی نقصانات ہی نہیں بلکہ بڑے پیمانے پر مالی نقصانات بھی ہوئے ہیں۔ مال مویشی، زراعت، تیار فصلوں اور املاک کا ضیاع ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں حالیہ بارش سے سب سے زیادہ کوئٹہ، قلعہ سیف اللہ، ژوب اور کوہلو کے اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق کوئٹہ میں سیلابی ریلوں سے زیادہ تر اموات ان علاقوں میں ہوئیں جہاں برساتی نالوں پر قبضہ کرکے گھر بنائے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم متعلقہ حکام کو قانونی کارروائی کیلئے لکھیں گے۔ وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمان نے بدھ کو کہا تھا کہ حالیہ مانسون کی بارش سے پاکستان میں سب سے زیادہ بلوچستان متاثر ہوا ہے جہاں اس مرتبہ مانسون کی بارش معمول سے۲۷۴؍ فیصد زیادہ ہیں۔ ڈپٹی کمشنر پشین ظفر علی کے مطابق پشین میں سیلابی ریلے میں ایک گاڑی بہہ گئی جس میں موجود دو بچوں اور ایک خاتون سمیت ۳؍ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ پشین کے علاقے کلی اورکان میں پانی سے ایک اور بچی کی لاش ملی ہے جس کے بعد ضلع میں مرنے والوں کی تعداد ۴؍ہو گئی ہے۔موسلا دھار بارش کے بعد سیلابی ریلے پشین کے علاقے کلی ڈب خانزئی، ملک یار اور منزکی میں داخل ہو گئے ہیں۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے نصیر احمد ناصر کے مطابق پشین میں مرغہ ملکیار ڈیم ٹوٹنے سے آبادی زیر آب ہے لیکن پانی آنے سے پہلے مقامی آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ قبل ازیں سیلاب سے خود کو بچانے کیلئے رات گئے مساجد میں اعلانات کرائے گئے جس کے بعد مقامی افراد نے خواتین اور بچوں کے ساتھ اونچے مقامات پر پناہ لی۔