• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

۳۱؍اراکین پرمشتمل مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل

Updated: August 10, 2024, 11:10 AM IST | Agency | New Delhi

وقف املاک بل:۱۰؍ سال میں پہلی مرتبہ جے پی سی قائم کی گئی ، ٹی ڈی پی ، وائی ایس آر کانگریس اور ایل جے پی کے رویے کے سبب بھی سرکار کواپوزیشن کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑا۔

While presenting the Waqf Bill, BJP members openly supported it. Photo: PTI
وقف بل پیش کرتے وقت بی جے پی کے اراکین نے اس کی کھل کر حمایت کی تھی۔ تصویر: پی ٹی آئی

وقف ترمیمی بل پر گزشتہ روز لوک سبھا میں اپوزیشن کے ہاتھوں شدید ہزیمت جھیلنے کے بعد مرکزی حکومت نے اس بل پر مزید غور کرنے کے لئے جمعہ کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی قائم کردی جس میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے کل ملاکر ۳۱؍ ممبران ہو ں گے۔ ان میں لوک سبھا سے ۲۱؍ ممبران پارلیمنٹ جبکہ راجیہ سبھا سے۱۰؍ ممبرا پارلیمنٹ جے پی سی میں شامل ہوں گے۔ ۲۰۱۴ء سے اب تک لوک سبھا میں کوئی بھی متنازع  بل منظور کروانے کے لئے سرکار کا طریق کار یہی ہوتا تھا کہ وہ اپنی طاقتور اکثریت  کے  بل پر اپوزیشن  کے احتجاج کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بل منظور کروالیتی تھی لیکن ۲۰۲۴ء کے نتائج کے بعد حالات یکسر بدل گئے ہیں۔ اب مودی حکومت بیساکھیوں پر آگئی ہے۔ چندرا بابو نائیڈو کی ٹی ڈی پی اور نتیش کمار کی جے ڈی یو کے سہارے کے بغیرمودی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ یہ بات وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کو اچھی طرح سے معلوم ہے۔ اسی لئے انہوں نے بجٹ میں دونوں ہی پارٹیوں کی جم کر منہ بھرائی کی لیکن  وقف بل کے معاملے میں غالباً مودی حکومت کو یہ مغالطہ ہوگیا کہ اس بل کو بھی  وہ اپنی ٹریڈ مارک دھاندلی کے ذریعے منظور کروالے گی لیکن لوک سبھا میں گزشتہ روز جہاں  اپوزیشن کے اراکین بل میں موجود شقوں اور مجوزہ ترمیمات کی کھل کر دھجیاں اڑارہے تھے، بل کو غیر آئینی اور ایک مذہبی اقلیت کے حقوق کے خلاف قرار دے رہے تھے وہیں مودی حکومت کی حامی پارٹیوں ٹی ڈی پی ، وائی ایس آر کانگریس اور ایل جے پی نے اس کی مخالفت تو نہیں کی لیکن  بل پر غور کرنے کے لئے جے پی سی بنانے کی حمایت ضرور کردی۔ 
 ٹی ڈی پی کے رکن پارلیمنٹ جی ایم ہریش بال یوگی نے اس بل پر گفتگو  میں حصہ لیتے ہوئے اپوزیشن پارٹیوں کو جے ڈی یو کے رکن پارلیمنٹ اور مرکزی وزیر للن سنگھ کی طرح  نشانہ تو نہیں بنایا لیکن یہ ضرور کہا کہ اس پر اتنا ہنگامہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔پارٹی چاہے گی کہ اس کی شقوں پر مزید غور کرنے اور اتفاق رائے قائم کرنے کے لئے اسے جے پی سی میں بھیجا جائے اور حکومت کی جانب سے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے جس میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں کے اراکین شامل ہوں۔ یہ سنسنی خیز مطالبہ اگر اپوزیشن کی صفوں  سے ہوا ہوتا تومودی حکومت  جیسا کہ اس کا وطیرہ رہا ہے اراکین کو معطل کرکے یا انہیں باہر نکال کر اس بل کو منظور کروالیتی لیکن اس مرتبہ یہ مطالبہ اس کی اپنی اتحادی پارٹی نے کردیا جس کی حمایت چراغ  پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی  نے بھی کی اور وائی ایس آر کانگریس نے بھی کردی۔  ٹی ڈی پی اور  ایل جے پی جہاں این ڈی اے حکومت میں شامل ہیں وہیںجگن موہن ریڈی کی پارٹی  اتحاد میں شامل نہ ہونے کے باوجود گزشتہ ۱۰؍ سال میں کئی  مرتبہ دونوں ہی ایوانوں میں مودی حکومت کی مدد کرتی رہی ہے لیکن اس مرتبہ اس کا رویہ بھی تبدیل ہو گیا ہے۔ ایسے میں مودی حکومت  یہ خطرہ مول نہیں لے سکتی تھی کہ وہ بل منظور کروانے کی کوشش کرے  اور اس میں اس کے اپنے اتحادی ہی ساتھ نہ دیں۔  سرکار کے پاس اس بات کی اب کوئی گیارنٹی نہیں ہے کہ وہ متنازع بل آسانی سے منظور کروالے گی۔
 سرکار نے جو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی قائم کی ہے اس کے ممبران میں لوک سبھا سے جگدمبیکا پال ، تیجسوی سوریہ ،نشی کانت دوبے،اپراجیتا سارنگی ، سنجے جیسوال ، دلیپ سائیکیا ،ارونا ڈی کے، ابھیجیت گنگو پادھیائے،گورو گوگوئی ، عمران مسعود،محمد جاوید، محب اللہ ندوی ، کلیان بنرجی ، اے راجہ ، دلیشور کامیت ،ایل دیورایالو ، اروند ساونت ، نریش مہسکے، سریش مہاترے، ارون بھارتی اور اسد الدین اویسی ۔ راجیہ سبھا سے برج لال، میدھا کلکرنی، غلام علی کھٹانہ، رادھا موہن داس اگروال، ندیم الحق ،سید ناصر حسین، وجے سائی ریڈی ،ایم ایم عبداللہ، سنجے سنگھ اور ویریندر ہیگڑے اس  کے ممبر ہوں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK