پوری دنیا حیرت زدہ ،حملہ آور شنزو آبے کی پالیسیوں سے ناراض تھا ، گولی اس وقت ماری جب آبے انتخابی مہم میں تقریر کررہے تھے ، وزیر اعظم مودی ،ڈاکٹر منموہن سنگھ اور راہل گاندھی سمیت پوری دنیا کے لیڈران نے اظہار تعزیت کیا، ہندوستان میں بھی سوگ
EPAPER
Updated: July 09, 2022, 9:27 AM IST | Tokyo
پوری دنیا حیرت زدہ ،حملہ آور شنزو آبے کی پالیسیوں سے ناراض تھا ، گولی اس وقت ماری جب آبے انتخابی مہم میں تقریر کررہے تھے ، وزیر اعظم مودی ،ڈاکٹر منموہن سنگھ اور راہل گاندھی سمیت پوری دنیا کے لیڈران نے اظہار تعزیت کیا، ہندوستان میں بھی سوگ
جاپان کے سابق وزیر اعظم شنزو آبےکو دن دہاڑے سنسنی خیز واردات میں گولی ماردی گئی ۔ جاپان کے نارا شہر میں انہیں اس وقت گولی ماری گئی جب وہ ایک سڑک پر انتخابی مہم کے دوران عوام سے خطاب کررہے تھے۔ تقریر کے دوران ہی ایک نامعلوم شخص نے انہیں پیچھے سے گولی ماری۔ پولیس نے شنزو آبے پر حملہ کرنے والے شخص کو گرفتار کر لیا ہے۔جاپان کے سرکاری چینل ’این ایچ کے‘ کے مطابق شنزو آبے کو فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا جہاں ان کی حالت کئی گھنٹوں تک انتہائی نازک تھی لیکن وہ جاپانی وقت کے مطابق شام ساڑھے پانچ بجے زندگی کی جنگ ہار گئے۔ ان کے انتقال کے بعد جاپان میں قومی سوگ کا اعلان کردیا گیا ہے جبکہ ہندوستان سمیت دنیا بھر سے ان کے لئے اظہار تعزیت کے پیغامات آرہے ہیں۔ ہندوستان میں بھی یک روزہ سوگ کا اعلان ہوا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم مودی ، سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور کانگریس پارٹی کے لیڈر راہل گاندھی نے اظہار افسوس کیا ہے۔
حملہ آور گرفتار ، پالیسیوں سے ناراض تھا
پولیس اور سیکوریٹی فورسیز نے حملہ آور کو موقع پر ہی گرفتار کرلیا تھا۔ اس کی شناخت ۴۱؍ سالہ ٹیٹسوا یاماگامی کے طور پر ہوئی ہے جو نارا شہر کا رہائشی ہے اور جاپان کی میری ٹائم سیلف ڈیفنس فورس کا سابق ممبر ہے جسے نیوی کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ پولیس کے مطابق یاماگامی نے شنزو آبے پر ۲؍ گولیاں چلائیں جو انہیں سینے اور گردن میں لگیں۔ اس کی وجہ سے وہ گر گئے اور ان کا خون بہنے لگا تھا ۔ ادھر حملہ آور نے موقع سے فرار ہونے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس نے وہیں سرینڈر کردیا ۔ اس کے پاس سے پولیس نے حملہ میں استعمال ہونے والی بندوق بھی برآمد کرلی ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ پوچھ تاچھ کے دوران یاماگامی نے بتایا کہ وہ شنزو آبے کی پالیسیوں سے سخت ناراض تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ وہ یا ان کی پارٹی دوبارہ اقتدار میں آئے۔ پولیس نے یہ بھی بتایا کہ یاماگامی اس انتخابی ریلی کے دوران صحافی بن کر آیا تھا اور اسی دوران اس نے پیچھے سے گولیاں چلائیں۔ پولیس اس بات سے حیرت زدہ ہے کہ اسے اسلحہ کہاں سے ملا کیوں کہ جاپان میں اسلحہ رکھنے پر پابندی ہے۔ پولیس نے اس کے گھر کی بھی تلاشی لی جہاں سے دھماکہ خیز اشیاء ملی ہیں۔
ڈاکٹروں نے کیا کہا ؟
ڈاکٹروں کے مطابق آبے کے بچنے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی لیکن انہیں زندہ رکھنے کی کوششیں تقریباً ۶؍ گھنٹے تک جاری رہیں۔ڈاکٹروں کے مطابق گولی شنزو آبے کی گردن میں لگی تھی جو جان لیوا ثابت ہوئی۔ خون بہنا روکنے کیلئے بلڈ ٹرانس فیوژن بھی کیا گیا لیکن وہ بھی کارگر ثابت نہیں ہوا۔
جاپانی وزیر اعظم کا پیغام
ملک کے وزیر اعظم فومیو کشیدا اپنے سرکاری پروگرام کو منسوخ کرنے کے بعد فوری طور پر جائے وقوع پر پہنچ گئے تھے اور آبے کے علاج کے بارے میں معلومات لیتے رہے۔ انہوں نے اس موقع پر میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے سبھی سے صبر و تحمل رکھنے کی اپیل کی اور کہا کہ یہ ملک کے لئے بہت بڑی ایمر جنسی ہے لیکن جس طرح سے ہم سابقہ حالات میں بطور قوم کامیاب رہے ہیں اسی طرح سے آج بھی ہمیں کامیاب ہونا ہے۔ انہوں نے شنزوآبے کو خراج عقیدت بھی پیش کیا۔ یاد رہے کہ جاپان کے سابق وزیر اعظم شنزو آبے کے مستعفی ہونے کے بعد ان کے قریبی اتحادی یوشیڈے سوگا وزیر اعظم بنے تھے جن کی جگہ بعد میں فومیو کشیدا نے لی۔
جاپانی سیاست کے ایک عہد کا خاتمہ
شنزو آبے کے انتقال سے جاپانی سیاست کے ایک عہد کا خاتمہ ہوا ہے کیوں کہ وہ سب سے طویل عرصے تک جاپان کے وزیر اعظم رہے۔ جاپان کے سابق وزیر اعظم پر یہ حملہ گزشتہ ایک صدی میں جاپان کی سب سے بڑی واردات قرار دیا جارہا ہے کیوں کہ اس قبل صرف دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان پر ایٹم بم سے حملہ ہوا تھا۔خیال رہے کہ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے سابق لیڈر آبے۲۰۰۶ء سے ۲۰۰۷ء تک اور پھر ۲۰۱۲ء سے ۲۰۲۰ء تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے۔۲۰۲۰ء میں انہوں نے صحت کی وجوہات کے سبب اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ انہوں نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کے بعد وزیر اعظم مودی سے بھی بہتر تعلقات رکھے اور ہندو ستان و جاپان کی شراکت داری کو کئی شعبوں میں مضبوطی اور بہتری عطا کی۔