علی گڑھ مسلم یونیور سٹی( اے ایم یو) کے اقلیتی درجے کے تعلق سےجمعہ کو سپریم کورٹ کی جانب سے سنائے گئے فیصلہ کا شہر و مضافات کےعلاوہ اطراف کےاضلاع میں رہائش پذیر اےایم یو کےسابق طالب علموں نے خیرمقدم کیا ہے۔
EPAPER
Updated: November 09, 2024, 5:53 PM IST | Mumbai
علی گڑھ مسلم یونیور سٹی( اے ایم یو) کے اقلیتی درجے کے تعلق سےجمعہ کو سپریم کورٹ کی جانب سے سنائے گئے فیصلہ کا شہر و مضافات کےعلاوہ اطراف کےاضلاع میں رہائش پذیر اےایم یو کےسابق طالب علموں نے خیرمقدم کیا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیور سٹی( اے ایم یو) کے اقلیتی درجے کے تعلق سےجمعہ کو سپریم کورٹ کی جانب سے سنائے گئے فیصلہ کا شہر و مضافات کےعلاوہ اطراف کےاضلاع میں رہائش پذیر اےایم یو کےسابق طالب علموں نے خیرمقدم کیاہے۔ ان طلبہ کےمطابق اس فیصلہ سے اقلیتی طبقے کے طلبہ کو یہاں سے تعلیم حاصل کرنےمیں آسانی ہوگی۔ان لوگوںنے اس فیصلہ پر اپنے تاثرات پیش کئے ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طالب علم اور بامبے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مشق کرنے والے معروف وکیل صغیر خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ سپریم کورٹ کے فیصلہ کا خیر مقدم ہے۔ ہمارے تجربہ میں یہ بات آرہی تھی کہ آہستہ آہستہ حکومت اور عدالتیں بھی اپنے فیصلوں میں مختلف قوانین کی تشریح کرتے ہوئے آئین میں مسلمانوں کو دیئے ہوئے حقوق کم کرتی جارہی تھی۔ لیکن اس فیصلہ میں سپریم کورٹ نے وضاحت کردی ہے کہ اگر کوئی قانون بنایا جاتا ہے جو آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق سے تضاد کھاتا ہوگا تو آئین کا آرٹیکل اس قانون پر غالب آجائے گا۔ اس معاملہ میں قانون اور آئین کے آرٹیکل ۳۰؍میں تضاد تھا اور قانون کو فوقیت دی جارہی تھی اس لئے امید ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک میں جو اضافہ ہوتا جارہا تھا اس پر اس فیصلے سے روک لگےگی۔
ایڈوکیٹ صغیر کے مطابق `سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ تعلیمی ادارے کا مائناریٹی ہونا اس بنیاد پر طے کیا جائے گا کہ اس کا قیام کن لوگوں کے ہاتھوں عمل میں آیا، اس کے قیام کا مقصد کیا تھا، اس کیلئے فنڈ کیسے اکٹھا کیا گیا اور زمین کا حصول کیسے ہوا؟
انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ لوگ تذبذب کا شکار ہیں کہ سپریم کورٹ نے ۳؍ججوں کی بنچ کے پاس اس معاملے کو کیوں بھیج دیا ہے۔ بات یہ ہے کہ ۳؍ ججوں کی بنچ کو ۵؍ججوں کی بنچ کا فیصلہ غلط معلوم ہورہا تھا لیکن چھوٹی بنچ بڑی بنچ کے فیصلے کے خلاف نہیں جاسکتی اس لئے اس بنچ نے سپریم کورٹ سے اس کی رائے طلب کی تھی۔ اب ٧ ججوں کی بنچ نے اپنی رائے دے دی ہے کہ اے ایم یو مائناریٹی ادارہ ہے۔ اس لئے اب ۳؍ججوں کی بنچ سپریم کورٹ کی رائے اور اس فیصلے میں موجود مشاہدات اور گائیڈ لائن کی بنیاد پر اپنا فیصلہ سنائے گی۔ انہوں نے اپنی بات اس جملہ پر ختم کی کہ ۳؍ ججوں کی بنچ نے اختلاف کی بنیاد پر ہی رائے طلب کی تھی اس لئے قوی امید ہے کہ ان کا فیصلہ یونیورسٹی کے مائناریٹی درجہ کے حق میں ہوگا۔
علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کے سابق طالب علم وسول انجینئر علیم احمد صدیقی نے اے ایم یو پر سپریم کورٹ کے سنائے گئے فیصلہ پر کہا کہ’’یونیورسٹی میں بی جے پی اور آر ایس ایس کی مداخلت کی کوشش بہت پرانی ہے ۔ ان کے اعتراضات اور مطالبات کا ہی نتیجہ تھا کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے یونیورسٹی کی اقلیتی حیثیت کو برقرار رکھنے کےخلاف فیصلہ سنایا تھا ۔بہر کیف چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڈ کی سربراہی میں ۷؍ رکنی بنچ میں ۴؍ ججوں نے یونیورسٹی کی اقلیتی حیثیت کو برقرار رکھنے پر جو فیصلہ سنایا ہے وہ راحت کا باعث تو ہے لیکن تین ججوں نے اس سے اتفاق نہیں کیا ہے ۔ ساتھ ہی کورٹ نے یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن پر اقلیتوں یعنی مسلمانوں کی اجارہ داری کو ضروری قرار نہیں دیاہے ، اس لئے یہ خطرہ اب بھی برقرار ہے کہ اس پر دوبارہ آواز اٹھائی جائے اور فیصلہ کو چیلنج کیا جائے ۔
بھیونڈی میں رہائش پزیر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طالب علم توفیق مومن نےاے ایم یو کے تعلق سے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا خیرمقدم کیا۔ اس کامیابی کیلئے انہوںنے اےایم یوکے ذمہ داران اور طلبہ کو دلی مبارکباد پیش کی اور ان کی انتھک محنت اور کوششوں کی ستائش کی۔ سپریم کورٹ نے اے ایم یو کے اقلیتی درجے کو برقرار رکھ کر ادارہ ھٰذا کے حق میں فیصلہ سنایاہے۔ اس سے اقلیتی طبقہ کے ۵۰؍فیصد طلبہ کو ریزرویشن کے تحت داخلے مل سکیں گے ۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔