تھاکسن شیناواترا نے۲۰۰۴ء میں ہونے والے ’تک بائی قتل عام‘ کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میںکہا کہ’ ’اگر مجھ سے کوئی غلطی یا عدم اطمینان ہوا ہے، تو معذرت خواہ ہوں۔‘‘
EPAPER
Updated: February 25, 2025, 1:29 PM IST | Agency | Bangkok
تھاکسن شیناواترا نے۲۰۰۴ء میں ہونے والے ’تک بائی قتل عام‘ کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میںکہا کہ’ ’اگر مجھ سے کوئی غلطی یا عدم اطمینان ہوا ہے، تو معذرت خواہ ہوں۔‘‘
تھائی لینڈ کے سابق وزیر اعظم تھاکسن شناوترا نے۲؍ دہائی قبل ملک کے جنوبی حصے میں فوج کے ٹرکوں میں دم گھٹنے والے متعدد مسلمان مظاہرین کے ’قتل عام‘ پر معافی مانگی ہے۔ ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ معافی ’تک بائی قتل عام‘ کے نام سے مشہور اس واقعے پر عوامی سطح پر مانگی جانے والی پہلی معافی ہے، اور یہ معافی ایک قانون کی میعاد ختم ہونے اور۷؍ مشتبہ افراد کے خلاف قتل کے الزامات ختم ہونے کے تقریباً۴؍ماہ بعد سامنے آئی ہے۔
خیال رہے کہ یہ قتل عام طویل عرصے سے تھائی لینڈ کے مسلم اکثریتی جنوبی صوبوں میں ریاستی استثنیٰ کی علامت کے طور پر کھڑا ہے، جہاں سرکاری افواج اور علاحدگی پسندوں کے درمیان کئی سال سے شورش جاری ہے، جو ایک ایسے خطے کیلئے زیادہ سے زیادہ خودمختاری کا مطالبہ کر رہے ہیں جو ثقافتی اور مذہبی طور پر بدھ اکثریتی ملک سے الگ ہے۔ قتل عام کے وقت وزیر اعظم رہنے والے تھاکسن نے کہا کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام کیلئے معافی مانگنا چاہتے ہیں جس سے لوگوں کو ’بے چینی‘ کا احساس ہوا ہو۔’ڈیپ ساؤتھ‘ کے نام سے مشہور علاقے کے۱۹؍ سال میں پہلے دورے کے دوران قتل عام کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ’’جب میں وزیر اعظم تھا، تو میرا مقامی لوگوں کی دیکھ بھال کرنے کا پختہ ارادہ تھا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ’ ’اگر مجھ سے کوئی غلطی یا عدم اطمینان ہوا ہے، تو معذرت خواہ ہوں۔‘‘ تھائی لینڈ میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ ’دوائے جے‘ کی شریک بانی انچنا ہیمینا کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب تھاکسن نے معافی مانگی ہے۔انہوں نے کہا کہ’ ’اگر وہ (معافی مانگنے کے بارے میں) مخلص ہیں تو انہیں مرنے والوں کے اہل خانہ سے آمنے سامنے جاکر بھی معافی مانگنی چاہیے۔‘‘
۲۵؍ اکتوبر۲۰۰۴ء کو سیکوریٹی فورسیز نے ملائیشیا کی سرحد کے قریب واقع صوبہ نارتھیوت کے قصبے تک بائی میں پولیس اسٹیشن کے باہر احتجاج کرنے والے ہجوم پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں۷؍ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد تھائی لینڈ کے فوجی ٹرکوں کے پیچھے۷۸؍ افراد کو گرفتار کر کے ایک دوسرے کے اوپر کھڑا کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ان کا دم گھٹ گیا اور ان کے ہاتھ پیٹھ کے پشت پر بندھے ہوئے تھے۔ گزشتہ سال اگست میں ایک صوبائی عدالت نے متاثرین کے اہل خانہ کی جانب سے۷؍ اہلکاروں کے خلاف دائر فوجداری مقدمے کو منظور کر لیا تھا، جن میں ایک سابق فوجی کمانڈر بھی شامل تھا، جو۲۰۲۳ء میں شیناواترا کی فیو تھائی پارٹی کے لیے پارلیمان کے لیے منتخب ہوا تھا۔ حکام نے عدالت میں پیش ہونے سے گریز کیا اور کیس چلنے سے روک دیا، اکتوبر میں تھاکسن کی بیٹی وزیر اعظم پیتونگٹرن شناوترا نے کہا تھا کہ پابندیوں کے قانون میں توسیع ممکن نہیں ہے۔