ایمانوئل میکرون اور نیتن یاہو کے درمیان لفظی جھڑپ کے بعد فرانس کے وزیر خارجہ نےبھی صہیونی ریاست کو آگاہ کیا کہ فوجی فتح مسئلے کاحل نہیں ہے، یرغمالوں کی رہائی کیلئے سفارتی کوششیں ضروری ہیں۔
EPAPER
Updated: October 09, 2024, 3:18 PM IST | Agency | Paris/Beirut
ایمانوئل میکرون اور نیتن یاہو کے درمیان لفظی جھڑپ کے بعد فرانس کے وزیر خارجہ نےبھی صہیونی ریاست کو آگاہ کیا کہ فوجی فتح مسئلے کاحل نہیں ہے، یرغمالوں کی رہائی کیلئے سفارتی کوششیں ضروری ہیں۔
غزہ میں ایک سال میں تقریباً ۴۲؍ ہزار فلسطینیوں کی موت کے بعدبھی یرغمالوں کو رہا کروانے میں اسرائیل کی ناکامی کا حوالہ دیتے ہوئے فرانس کے وزیر خارجہ جین نوئل بیروٹ نے اپنے صدر ایمانوئل میکرون کی تائید کرتےہوئے جنگ بند کرکے سفارتی کوششیں شروع کرنے کی وکالت کی ہے۔ واضح رہے کہ فرانس جو امریکہ اور اسرائیل کا اتحادی ہے، کے صدر میکرون نے یہ مشورہ دے کر سب کو حیران کردیا ہے کہ اگر جنگ کوروکنا ہے تو غزہ میں استعمال کیلئے اسلحہ کی فراہمی بند کردی جانی چاہئے۔ ان کے اس بیان پرتل ابیب تلملا گیا ہے مگر پیرس اپنے موقف پرقائم ہے۔ پیر کو مشرق وسطیٰ کے ۴؍ روزہ دورہ پر پہنچنے کے بعد یروشلم میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرانس کے وزیر خارجہ جین نوئل بیروٹ نے صہیونی ریاست کو آگاہ کیا کہ ’’صرف طاقت کا استعمال کرکے آپ اسرائیل کی سلامتی کو یقینی نہیں بناسکتے۔ فوجی کامیابی کسی بھی صورت میں سفارتی حل کا متبادل نہیں ہوسکتی۔‘‘ انہوں نے تل ابیب کو یہ احساس دلاتے ہوئے کہ ایک سال کی جنگ کے بعد بھی وہ یرغمالوں کو رہا کرانے میں ناکام رہاہے، فرانسیسی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’ایک سال کی جنگ کے بعد اب یرغمالوں کو ان کے چہیتوں کے پاس واپس لانے اور جنگ کی وجہ سے (اسرائیل میں ) بے گھر ہونےوالے افراد کی ان کے گھروں میں واپسی کیلئے سفارتی کوششوں کا وقت آگیا ہے۔ ‘‘واضح رہے کہ اسرائیل میں ایک لاکھ ۸۰؍ ہزار فرانسیسی شہری آباد ہیں۔
اس سے قبل فرانسیسی صدر میکرون نے کہا تھا کہ اگر عالمی برادری جنگ بندی چاہتی ہے تو اسرائیل کو ہتھیاروں کی سپلائی بند کر دے، جنگ بندی کا مطالبہ کرنا اور ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھنا متضاد ہے۔ ان کے کا یہ بیان اس لئے اہم ہے کہ وہ امریکہ اورا سرائیل دونوں کے اتحادی ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو جو اپنی بدتمیزی کیلئے پہچانے جاتے ہیں کہ، نے باجواز گفتگو پر اپنے اتحادی ملک کے صدر کے ساتھ بھی بدزبانی کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ’’ فرانسیسی صدر میکرون اسرائیل کیلئے ہتھیاروں کی پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کو شرم آنی چاہیے، اسرائیل ان کی حمایت کے بغیر بھی جنگ جیت جائے گا۔ ‘‘
اس کے ساتھ ہی نیتن یاہو نے یہ بے بنیاد دعویٰ کیا کہ ’’ اسرائیل ایران کی سربراہی میں کی جارہی جارحیت کا مقابلہ کر رہا ہے، تمام ممالک کو مضبوطی سے اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے۔ ‘‘ اس لفظی جھڑپ کے بعد فرانس ہی اس وقت ہتھیار ڈالتا ہوا نظر آیا جب پیرس میں صدارتی محل سے بیان جاری کیاگیا کہ ’’ دونوں لیڈروں نے ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے ہوئے بہتر تفہیم کیلئے باہمی گفتگو پر زور دیا ہے۔ ‘‘ تاہم بیان میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’’میکرون نے نیتن یاہو سے کہا ہے کہ اب جنگ بندی کا وقت آ گیا ہے، اسلحے کی فراہمی، غزہ میں جنگ کا طول پکڑنا اور لبنان تک اس کی توسیع اسرائیلیوں اور خطے کے ہر فرد کی توقع کے مطابق سلامتی پیدا نہیں کر سکتی، ہمیں فوری طور پر فیصلہ کن کوشش کرنی چاہیے۔ ‘‘