• Sat, 23 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

قیامت خیز گرمی میں باربار بجلی کی کٹوتی

Updated: May 17, 2022, 11:32 AM IST | Agency | Lucknow

عوام کو شدیددشواری ، کاروبار اور صنعت بھی متاثر۔شہر ہو یا گا ؤں ، دن ہو یارات ،غیر اعلانیہ بجلی کٹوتی کا سلسلہ جاری ہے ریاست میں بجلی کی مانگ بڑھ گئی ہے، ۲۵؍ ہزار میگا واٹ سے زائد ہوگئی ہے، پاور کارپوریشن کی بھی دقتیں بڑھ گئی ہیں

The administration says that the fault also affects the power supply.Picture:INN
ا نتظامیہ کا کہنا ہے کہ فالٹ سے بھی بجلی سپلائی متاثر ہوتی ہے۔ تصویر: آئی این این

  قیامت خیز گرمی میں باربار  بجلی منقطع ہونے سے عوام کو شدیددشواری کا  سامنا کرنا پڑر ہا ہے۔ شہرہو یا گا ؤں ، رات ہو یاد ن بجلی کسی بھی وقت  چلی جاتی ہے۔ ریاست میں بجلی کی مانگ ۲۵؍ہزار میگا واٹ سے زائد ہوگئی ہے۔ ایسے میں پاور کارپوریشن کی دقتیں بڑھ گئی ہیں۔ ۳؍ ہزار سے ۴؍ ہزار میگا واٹ تک اضافی بجلی کے انتظام باوجود بجلی سپلائی کا نظام متاثر ہے۔ اسے بہتر کرنا مشکل نظر آرہا ہے۔ بجلی کے بحران کا اثر صنعت اور کاروبار پر بھی پڑ رہا ہے۔ اس کے باوجود انتظامیہ کی جانب سے بجلی سپلائی معمول کے مطابق ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔   ریاست میں سنیچر کو بجلی کی مانگ ۲۵؍ ہزار ۲۶۱؍ میگا واٹ تک پہنچ گئی ہے ۔ یہ اب تک کی سب سے زیادہ مانگ ہے۔ اسٹیٹ لوڈ ڈسپیچ سینٹر( ایس ایس ڈی سی) کے افسران کی مانیں تو مر کز سے ۲۰۰۰۔۱۵۰۰؍ میگا واٹ ، بینکنگ سے ۱۷۰۰۔ ۱۳۰۰؍ میگا واٹ اور انر جی ایکسچینج سے ۲۳۰۰؍ میگاواٹ بجلی خرید کر بجلی نظام کو پٹری پر لانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن زمینی حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ لکھنؤ کے شہری اور دیہی علاقوں میں توانائی کا سنگین بحران ہے۔ شاید ہی کوئی علاقہ ایسا ہے جہاں صبح سے لے کر رات تک کم ازکم ۱۵۔۱۲؍ مرتبہ بجلی  آتی جاتی نہ ہو۔ لکھنؤ کے کئی علاقوں میں دن رات میں کئی بار   ۱۵؍ منٹ سے ایک گھنٹے تک  بجلی غائب ہوجاتی ہے جس سے عوام کا چین چھن گیا ہے۔ لوگ گھروں سےنکل کر بے چینی سے باہر ٹہلنے لگتے ہیں۔   اس دوران گھروں سے بچوں کے رونے کی بھی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ایس ایل ڈی سی کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ دیہی علاقوں اور بنڈیل کھنڈ کے سوا تمام مقامات پر طے شدہ وقت کے مطابق بجلی دی جاتی ہے لیکن شاید ہی کوئی شہر ، قصبہ ، گاؤں ، ضلع کلکٹریٹ یا  تحصیل ہے جہاں طے شدہ وقت کے مطابق بجلی سپلائی کی جاتی ہے۔ افسران کا کہنا ہے کہ ضرورت کے مطابق بجلی کا انتظام کیا جاتا ہے ، ہوسکتا ہےکہ کچھ مقامات پر فالٹ یا کسی اور وجہ سے کٹوتی کی جاتی ہو، حالانکہ افسران دبی زبا ن میںاس کا اعتراف بھی کرتےہیں کہ واقعی جتنی بجلی کی ضرورت ہے، اتنی  دستیاب کرا نے میں دقتیں ہورہی ہیں  ۔ اسی طرح  بجلی نظام کو محفوظ رکھنے کیلئے بھی وقفے وقفے سے بجلی کی کٹوتی کی جاتی ہے۔  بار بار بجلی آنے جانے سے کا روبا ر اورصنعت پر بھی اثر پڑرہا ہے۔ خاص طور پر چھوٹی اوردرمیانی صنعتوں کیلئے اپنا وجود بچا نا مشکل ہوتاجاہا ہے۔ بنکروں کے ساتھ ساتھ چوڑی ، تالا اور دیگر صنعتوںکا بھی نقصان ہو رہا ہے۔ کورونااور لاک ڈاؤن نے ریاست کی مختلف صنعتوں کو  بری طرح نقصان پہنچا یا تھا۔ ان  سے وابستہ افراد کو امید تھی کہ کورونا ختم ہونے کے بعد نقصان کی تلا فی ہو جائےگی لیکن بجلی بار بار آنے جانے سے ان کا کاروبا ر ابھی تک پٹری پر نہیں آسکا ہے۔  ادھر تاجروں کو بھی دقت ہورہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شام کے وقت بجلی منقطع ہونے سے بازاروں میں تاجر بھی پریشان ہورہےہیں۔  ریاستی پاور کارپوریشن کے چیئر مین ایم دیو راج کا کہناہے کہ بجلی کی مانگ لگاتار بڑھ رہی ہے۔  نظام الاوقات کےمطابق بجلی سپلائی کیلئے اضافی بجلی کا انتظام کیا گیا ہے۔ تما م علاقوں میں طے شدہ وقت کےمطابق بجلی سپلائی کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK