• Sat, 23 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

جھارکھنڈ سے متحدہ عرب امارات تک مودی حکومت پربدعنوانی کے سنگین الزامات

Updated: November 05, 2024, 11:33 PM IST | New Delhi

کانگریس کا دعویٰ، جھارکھنڈ میں ’موڈانی گروپ‘ نے کسانوں کی زمین لے لی لیکن معاوضہ نہیں دیا ۔ یو اے ای کے درمیان اقتصادی شراکت داری کے معاہدہ میں بھی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی

Congress chief Mallikarjun Kharge was welcomed by Chief Minister Hemant Soren on his arrival in Jharkhand (Photo: PTI).
جھارکھنڈ پہنچنے پرکانگریس سربراہ ملکارجن کھرگے کا وزیراعلیٰ ہیمنت سورین نے خیرمقدم کیا (تصویر: پی ٹی آئی)

کانگریس نے ایک بار پھر مودی سرکار کا کچا چٹھا عوام کے سامنے کھول دیا ہے۔ اس بار کانگریس نے جھارکھنڈ سے لے کر متحدہ عرب امارات تک مودی حکومت پر بدعنوانیوں کے کئی الزامات عائد کئے ہیں اور اس سے جواب طلب کیا ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پر ایک طویل پوسٹ میں انکشاف کیا کہ ’موڈانی گروپ‘ نے جھارکھنڈ میں کسانوں کی زمین تو حاصل کرلی لیکن انہیں ان کا معاوضہ نہیں دیا۔ اسی طرح ہندوستان اور یو اے ای کے درمیان اقتصادی شراکت داری میں بھی بدعنوانی اور بے ضابطگی سے متعلق کئی باتوں کی نشاندہی کی ہے۔ 
  کانگریس لیڈرنے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’’۲۰۱۵ءمیں ’مودانی گروپ‘ نے جھارکھنڈ کے گوڈا ضلع میں۱۰؍ دیہاتوں میں کوئلے پر مبنی بجلی گھر کے قیام کی کوششیں شروع کیں۔ اس پروجیکٹ کیلئے مقامی کسانوں سے۱۲۵۵؍ ایکڑ زمین کا زبردستی حصول کیا گیا، جس کے دوران کئی شکایات سامنے آئیں کہ اس عمل میں زبردستی اور دھمکیاں شامل تھیں۔‘‘انہوں نے مزید لکھا کہ ’’ سابقہ بی جے پی حکومت کے مکمل تعاون سے یہ پروجیکٹ تیز رفتاری سے آگے بڑھایا گیا، جس میں بجلی گھر کو خصوصی اقتصادی زون (ایس ای زیڈ) قرار دینے سمیت کئی فوائد فراہم کئے گئے۔ نان بایولوجیکل وزیراعظم کی حکومت نے بھی اس پروجیکٹ کی تکمیل میں دلچسپی رکھی، جس کی وجہ سے معاملہ پیچیدہ ہو گیا۔‘‘
 کانگریس لیڈرنے کہا کہ بنگلہ دیش میں سیاسی تبدیلی کے بعد، جو پہلے اس بجلی گھر سے بجلی خرید رہا تھا، مرکزی حکومت نے ’مودانی گروپ‘ کو ہندوستان میں  بجلی کی فروخت کی اجازت دے دی۔ اس فیصلے نے کسانوں کے خدشات کو بڑھا   دیا ہے کیونکہ وہ اب بھی اپنی زمین کے حصول کے بعد مکمل معاوضے کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’جھارکھنڈ  اسمبلی انتخابات میں ایسی حکومتوں کے درمیان مقابلہ ہے، جس میں ایک عوام کیلئے کام کرتی ہے اور دوسری نان بایولوجیکل وزیراعظم اور ان کے قریبی دوستوں کی خوشنودی کیلئے کام کرتی ہے۔‘‘
 اسی کے ساتھ کانگریس نے ہندوستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان اقتصادی معاہدے میں پائی جانے والی بھی کچھ خامیوںاور بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی ۔انہوں نے بتایا کہ اس کی وجہ سے ملک کو ریونیو میں کم از کم ۱۷۰۰؍ کروڑ روپے کے نقصان کا خدشہ ہے۔مذکورہ معاہدے میں موجود تکنیکی خامیوں کو سمجھاتے ہوئے جے رام رمیش اپنی پوسٹ میں لکھتے ہیں کہ ’’۲۰۲۲ء میں معاہدہ پر دستخط ہونے کے بعد سے ہندوستان نے۲۴؍ ہزار کروڑ روپےقیمت کے پلاٹینم مرکب شئے کی درآمد کی ہے۔ ٹیکس افسران کے داخلی ریکارڈ کا اندازہ ہے کہ اس میں۹۰؍ فیصد سے زائد حقیقی معنوں میں سونا ہے۔جولائی۲۰۲۴ء تک سونے پر۱۸ء۴۵؍ فیصد کے فعال ٹیکس کے مقابلے پلاٹینم مرکب شئے پر امپورٹ ڈیوٹی۸ء۱۵؍ فیصد تھا۔ اس مرکب شئے کو سونے کی جگہ پلاٹینم کی شکل میں درجہ بندی کرنے کی وجہ سے ملک کو۱۷۰۰؍ کروڑ روپے کے نقصان کا اندازہ ہے۔‘‘ انہوں نے کہاکہ مالی نقصان کے علاوہ اس خامی نے ملک کے ریگولیٹری بنیادی ڈھانچے کو بھی مذاق بنا دیا ہے۔
 انہوں نے کہا کہ وزیر مالیات نےجولائی۲۰۲۴ء میں اپنی بجٹ تقریر میں سونے پر ڈیوٹی کو کم کیا تھا۔ یہ جزوی طور سے اس خامی کو دور کرنے کیلئے کیا گیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں حکومت کی اقتصادی پالیسی پر عمل کو یقینی بنانے کیلئے ایک معاہدے پر بات چیت کی جگہ حکومت نے معاہدہ میں خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کیلئے اپنی پالیسی کو ایڈجسٹ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ کاروباریوں کو سونے کی درآمدات پر پابندی لگا دی گئی ہےلیکن وہ ریگولیشن کو درکنار کرنے کیلئے’ای پی اے‘ کے ذریعہ پیدا کی گئی اس خامی کا استعمال کرنے میں پوری طرح سے آزادہیں۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات خود سونے کی کانکنی نہیں کرتا۔ یہ شئے افریقہ سے درآمد کرتا ہے۔ کانگریس لیڈر نے بتایا کہ یو اے ای میںقیمتوں میں اضافہ پروڈکٹ کی قیمت کا۳؍ فیصد ہے،اسلئے سونا یا پلاٹینم ’ای پی اے‘ کے ذریعہ کور کیا جاتا ہے، اس کی وجہ سے ہمارا سونا درآمدات کا مکمل ریگولیشن نظام کمزور ہو رہا ہے۔
  انہوں نے کہا یہ سب کچھ ملک کو نقصان پہنچا کر دوسروں کو فائدہ پہنچانے کیلئے کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح سے کسی کو فائد ہ پہنچاکر یقیناً کوئی فائدہ بھی اٹھارہا ہوگا۔ اب یہ فائدہ کون اٹھارہا ہے،اس کا اندازہ عوام کولگانا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK