• Thu, 06 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

غزہ کی ۶۶؍ فیصد آبادی پناہ گزینوں پر مشتمل، ٹرمپ کے اعلان سے شہریوں میں نکبہ کی تلخ یادیں تازہ

Updated: February 06, 2025, 2:10 PM IST | Agency | Gaza

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے غزہ کے مکینوں کو پڑوسی ممالک میں نقل مکانی کرنے پر مجبور کرنے کے بیانات نے فلسطینیوں کی ذہنوں میں ’نکبہ‘ کی یاد تازہ کر دی ہے۔ یہ تلخ یادیں فلسطین کے مختلف علاقوں سے آنے والے ان مہاجرین کی ہیں جو ۱۹۴۸ء کی جنگ اور اس کے بعد کے حالات کے بعد غزہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔

In 1948, a large population of Palestine was deprived of their homes. Photo: INN
۱۹۴۸ء میں فلسطین کی ایک بڑی آبادی اپنے گھروں سےمحروم ہوگئی۔ تصویر: آئی این این

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے غزہ کے مکینوں کو پڑوسی ممالک میں نقل مکانی کرنے پر مجبور کرنے کے بیانات نے فلسطینیوں کی ذہنوں میں ’نکبہ‘ کی یاد تازہ کر دی ہے۔ یہ تلخ یادیں فلسطین کے مختلف علاقوں سے آنے والے ان مہاجرین کی ہیں جو ۱۹۴۸ء کی جنگ اور اس کے بعد کے حالات کے بعد غزہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔ العربیہ کی ایک رپورٹ کے مطابق فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کے ریکارڈز نے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوری۲۰۲۲ء اس کے پاس رجسٹرڈ فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد تقریباً۵۹؍ لاکھ تھی۔ ان میں سے تقریباً۲۵؍ لاکھ مغربی کنارے اور غزہ میں ہیں جو کل فلسطینی پناہ گزینوں کا تقریباً ۴۲؍ فیصد ہیں جن میں مغربی کنارے میں ۱۵؍ اور غزہ میں ۲۷؍ فیصد ہیں۔ 
 فلسطین میں پناہ گزینوں کی آبادی کا تناسب۲۰۱۷ء میں فلسطین میں مقیم کل آبادی کا تقریباً۴۲ء۲؍ فیصد تھا جب کہ مغربی کنارے کی آبادی کا۲۶ء۳؍ فیصد پناہ گزین ہیں۔ فلسطین کے مرکزی ادارہ شماریات کے مطابق غزہ میں پناہ گزینوں کی شرح۶۶ء۱؍ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ 
 ۱۹۴۸ءمیں نکبہ کے موقع پر غزہ بریگیڈ لازمی فلسطین کے ۵؍ بریگیڈز میں سے ایک تھا۔ اس میں غزہ اور بیئر سبع کے اضلاع شامل تھے۔ لیکن جنگ کے بعد اسرائیل نے پورے بیر سبع اور غزہ کے بیشتر اضلاع کا کنٹرول سنبھال لیا۔ غزہ کی پٹی کے قبضے سے باہر باقی ماندہ علاقہ مصری فوجی انتظامیہ کے تحت آ گیا۔ بعد میں اسے غزہ کی پٹی کے نام سے جانا جانے لگا۔ اس کا رقبہ۳۶۱؍ مربع کلومیٹر ہے جو کل ارض فلسطین کے رقبے کا ۱ء۳۳؍فیصد سے زیادہ نہیں۔ زیادہ تر بریگیڈ کا قبضہ۴۹؍ دیہات کی تباہی اور ان کے باشندوں کی نقل مکانی کے ساتھ تھا۔ غزہ ضلع اور لد ضلع سے بھی غزہ کی پٹی کی طرف بھاگنے والوں کی تعداد ۲, لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔ ’’انٹرایکٹو انسائیکلوپیڈیا آف دی فلسطین کاز‘‘ کی ویب سائٹ کے اعدادو شمار کے مطابق اس وقت غزہ میں اصل باشندوں کی تعداد۸۰؍ ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ مہاجرین کو ابتدائی طور پر مساجد، اسکولوں، مکانات، کچھ بیرکوں اور کھلی زمینوں میں منتقل کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے ساتھ ایک معاہدہ کے تحت امریکن فرینڈز سروس کمیٹی نے پناہ گزینوں کی امداد کی ذمہ داری قبول کی۔ مصری انتظامیہ کی طرف سے مختص سرکاری اراضی پر ۸؍ کیمپ قائم کئےگئے تھے۔ انہیں پڑوسی شہروں اور قصبوں کے نام دیئے گئے۔ جبکہ اسوسی ایشن نے۸؍ دسمبر۱۹۴۹ء کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر ۳۰۲؍ پرمبنی اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین(UNRWA) تشکیل دی جس نے یکم مئی۱۹۵۰ءکو اپنے کام کے بعد ان کیمپوں کا کنٹرول سنبھالا۔ اسی سال کی سخت سردیوں کے بعد اس تنظیم نے پناہ گزینوں کے خیموں میں رہنے کے بعد اینٹوں اور پتھروں کی رہائش گاہیں بنا کر ان پناہ گزینوں کو ۸؍کیمپوں میں میں منتقل کیا گیا۔ ۵۰ءکی دہائی کے اوائل میں بین الاقوامی تنظیم کے قیام کے فوراً بعد عالمی فریقین (پہلے امریکہ) نے پناہ گزینوں کو بسانے کیلئے منصوبے تجویز کرنے کی کوشش کی۔ ۱۹۵۱ءمیں یواین دبلیو اے نے ایک برطانوی تجویز پر لیبیا کی منظوری سے۲؍ ہزار ۵۰۰؍ مہاجرین کو لیبیا منتقل کرنے کے پروگرام پر عمل درآمد شروع کیا۔ اسی طرح ۱۲؍ ہزار خاندانوں کو شمال مغربی سینا میں منتقل کیاگیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK