اسکول میں مزاحمت کاروں کی موجودگی کے اسرائیل کے الزامات اپنے جرم کو چھپانے کی منظم پالیسی ہے: حماس۔
EPAPER
Updated: October 19, 2024, 12:15 PM IST | Agency | Gaza
اسکول میں مزاحمت کاروں کی موجودگی کے اسرائیل کے الزامات اپنے جرم کو چھپانے کی منظم پالیسی ہے: حماس۔
غزہ کی وزارتِ صحت کے ایک اہلکار نے بتایا کہ جمعرات کو شمالی غزہ کی پٹی میں ایک پناہ گاہ پر اسرائیلی حملے میں بچوں سمیت کم از کم۲۸؍ فلسطینی جاں بحق ہو گئے جبکہ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس جگہ پر دسیوں مزاحمت کاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ اہلکار مدحت عباس نے بتایا کہ حملے میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے اور مزید کہا: ’’آگ بجھانے کے لیے پانی نہیں ہے۔ کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ ایک قتلِ عام ہے۔ شہریوں اور بچوں کو قتل کیا اور جلایا جا رہا ہے۔ ‘‘
اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا، حماس اور اسلامی جہاد گروپوں کے مزاحمت کار جبالیا میں ابو حسین سکول کے اندر سے کارروائی کرتے تھے جو بے گھر لوگوں کے لیے پناہ گاہ بنایا گیا تھا۔ جب حملہ ہوا تو درجنوں مزاحمت کار احاطے کے اندر موجود تھے۔ فوج نے ان میں سے کم از کم۱۲؍ کے نام بتائے جن کی رائٹرز فوری طور پر تصدیق نہیں کر سکا۔ فوج نے کہا کہ اس نے عام شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم از کم کرنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کیں ۔
حماس نے ایک بیان میں کہا کہ اسکول میں مزاحمت کاروں کی موجودگی کے الزامات جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ۔ اپنے جرم کو درست ثابت کرنے کے لیے یہ دشمن کی ایک منظم پالیسی ہے۔
حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے سرکاری میڈیا دفتر نے اسکول میں ہلاک شدگان کی تعداد۲۸؍ اور زخمیوں کی۱۶۰؍ بتائی۔ فلسطینی میڈیا کی نشر کردہ ابو حسین سکول کی فوٹیج کی رائٹرز فوری طور پر تصدیق نہیں کر سکا۔ اس میں ان خیموں سے دھواں نکلتا ہوا دکھایا گیا جن میں آگ لگ گئی تھی۔ شمالی غزہ میں جبالیہ کے رہائشیوں نے بتایا کہ اسرائیلی افواج نے مکانات کے غول کو فضائی حملوں ، ٹینکوں اور عمارات میں بم رکھ کر دور سے دھماکے کر کے اڑا دیا۔ یہ علاقہ گذشتہ دو ہفتوں سے اسرائیلی فوج کی توجہ کا مرکز ہے جس نے کہا ہے کہ وہ حماس کے مزاحمت کاروں کو مزید حملوں کے لیے دوبارہ منظم ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔
رہائشیوں نے کہا کہ اسرائیلی افواج نے انکلیو کے انتہائی شمال میں بیت حنون، جبالیا اور بیت لاہیا کو مؤثر طریقے سے غزہ شہر سے الگ کر دیا تھا۔ نقل و حرکت کی اجازت صرف ان خاندانوں کو دی گئی جو انخلا کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے تینوں قصبات کو چھوڑ رہے تھے۔
ایک رہائشی نے چیٹ ایپ کے ذریعے رائٹرز کو بتایا، ’’ہم نے اپنے موت کی تحاریر لکھ رکھی ہیں اور ہم جبالیہ نہیں چھوڑ رہے۔ ‘‘ چار بچوں کے والد نے اسرائیلی انتقام کے خوف سے اپنا نام بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا، "قابض (اسرائیل) ہمیں جنگ کے ابتدائی دنوں میں اپنے گھروں سے نہ نکلنے کی سزا دے رہے ہیں اور ہم اب بھی نہیں جا رہے۔ وہ گھروں اور سڑکوں کو اڑا رہے اور ہمیں بھوکا مار رہے ہیں لیکن ہم ایک ہی بار مریں گے اور اپنا احساسِ فخر نہیں چھوڑیں گے۔ ‘‘