• Sat, 23 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

غزہ جنگ: فرانسیسی یونیورسٹی کے طلبہ اور حکومت کے درمیان تناؤ میں اضافہ

Updated: April 30, 2024, 6:09 PM IST | Paris

فرانس میں غزہ میں نسل کشی کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ اور فرانسیسی حکومت کے درمیان تناؤ بڑھ رہا ہے۔ فرانسس کی متعدد یونیورسٹیوں کے طلبہ نے فلسطین حامی احتجاج کیا اور فلسطینی پرچم بھی لہرائے۔ وزیر اعظم گیبرئیل اٹل نے کہا کہ یہاں ایسی سرگرمیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

Student during protest. Photo: X
طلبہ احتجاج کے دوران۔ تصویر: ایکس

غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے دوران فرانسیسی حکومت اور ملک کی اعلیٰ یونیورسٹیوں کے طلبہ کے درمیان تناؤ بڑھ رہا ہے۔ یاد رہے کہ امریکی یونیورسٹیوں کے طلبہ کی طرح فرانس کی یونیورسٹیوں کے طلبہ نے بھی فلسطین حامی احتجاج منعقدکیا تھا۔
گزشتہ ہفتےپیرس کی سائنسس پویونیورسٹی کے طلبہ نے ادارےکے مختلف حصوں پرقبضہ کیا تھا اور پولیس کے آنے سے قبل یونیورسٹی کی عمارت کے داخلی دروازے کو بلاک کر دیا تھا۔ سنیچر کو وزیر اعظم گیبرئیل اٹل نے کہا تھا کہ ’’اقلیت خطرناک طریقے سے شمالی امریکہ سے متاثر ہو کر اپنے نظریات اور اصولوں کونافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے جسے یہاں برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘

پیر کو پولیس کی دھمکیوں سے بےخوف ہو کر سوربون یونیورسٹی کے طلبہ نے یونیورسٹی کے کیمپس میں مظاہرے کئے ، خیمے لگائے اور فلسطینی پرچم بھی لہرائے تھے۔سائنسس یونیورسٹی کے ایک ماسٹرز کے طالب علم اسماعیل نے کہا کہ’’ یورنیوسٹی حکام نے انہیں کہا کہ انہیں معطل کیا جا سکتا ہے، ڈائریکٹر دوبارہ پولیس بلائیں گے یا انہیں ڈپلوما کی ڈگری نہیں دی جائے گی پھر بھی میں خوفزدہ نہیں ہوں۔ مجھے نسل کشی میں ملوث یونیورسٹی کی جانب سے مختلف پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے پھر بھی جو کر سکتا ہوں کروں گا۔‘‘

اسماعیل کے مطابق ان کی یونیورسٹی غزہ میں نسل کشی کی مخالفت کرنے اور ایسی کمپنیوں یا تجارتی اداروں سے علاحدگی اختیار کرنے میں ناکامیاب ہوئی ہے جو نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں۔ سائنسس پو یونیورسٹی کے مشرقی وسطیٰ کی متعدد یونیورسٹیوں کے ساتھ تعلقات ہیں  جن میں تل ابیب یونیورسٹی بھی شامل ہے۔ بدھ کو سائنسس پو یونیورسٹی کے سیکڑوں طلبہ کے خیمے لگانے کے حق میں ووٹ دینے کے بعد مظاہرین طلبہ نے یونیورسٹی کیمپس کے کچھ حصے پر قبضہ کیا تھا۔

طلبہ نے امریکی یونیورسٹیوں کی طرح یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کیاتھا کہ وہ ایسی کمپنیوں یا اسرائیلی اداروں کے ساتھ علاحدگی اختیار کریں جو غزہ میں نسل کشی میں ملوث ہیں۔ یاد رہے کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ۳۴؍ ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق جبکہ۷۷؍ ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ 
بعد ازیں کچھ گھنٹوں بعدیونیورسٹی کے عارضی صدر جین بسیرے نے فسادی پولیس افسران کو سمن جاری کیا تھا کہ وہ طلبہ کے دھرنے کو ختم کریں ۔متعدد طلبہ کے مطابق مظاہرین طلبہ کو حراست میں نہیں لیا گیا تھا لیکن صدر کا فیصلہ حد سے تجاوز کر گیا تھا۔

طلبہ فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے۔ تصویر: ایکس

فرانسیسی حکومت نے طلبہ کو یونیورسٹی سے ہٹانے کیلئے یونیورسٹی حکام پر دباؤ ڈالا تھا
الیانا، جو ایک فرانسیسی امریکی طالبہ ہیں، نے نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر الجزیزہ کو بتایا کہ ان کا مانناہے کہ فرانسیسی حکومت نے یونیورسٹی حکام پر سیکوریٹی فورسیز کو یونیورسٹی میں بلانے کیلئے دباؤ ڈالا تھا۔
 انہوں نے مزید بتایا کہ ’’بدھ کو قبضے کے دوران یونیورسٹی کی انتظامیہ کے ساتھ میری پہلی میٹنگ  میںانتظامیہ کے ایک شخص کو کال موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ ہمیں یونیورسٹی سے باہر نکالنے کیلئے کچھ بھی کیا جائےکیونکہ حکومت نے دباؤ ڈالا تھا۔‘‘
انہوں نے امریکی یونیورسٹیوں کے طلبہ کے احتجاج کے حوالے سے کہا کہ ’’مجھےایسا لگتا ہے کہ فرانسیسی حکومت یہاں کولمبیا یونیورسٹی کے جیسی خیمہ زنی نہیں چاہتی ۔‘‘ خیال رہے کہ کولمبیا اور امریکہ کی دیگر یونیورسٹیوں کے طلبہ نے فلسطینی حامی احتجاج کیا تھا جس کی وجہ سے پولیس نے سیکڑوں طلبہ کو حراست میں لیا جبکہ متعدد کو معطل بھی کیا ۔ 
انہوں نےاپنی یونیورسٹی کے تعلق سے کہا کہ ’’سائنسس پو یونیورسٹی سمجھتی ہے کہ اپنے ہی طلبہ کیلئے پولیس بلانا درست ہے۔ ہم یونیورسٹی کے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہیںاور اپنے مطالبات کو منوانے کی طاقت رکھتے ہیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK