کہا : نیتن یاہو اور یوآف گیلانت کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ مکمل شفافیت کے تحت جاری کئے گئے ہیں
EPAPER
Updated: November 23, 2024, 2:30 PM IST | Agency | Hague
کہا : نیتن یاہو اور یوآف گیلانت کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ مکمل شفافیت کے تحت جاری کئے گئے ہیں
بین الاقوامی فوجداری عدالت نے جج بیٹی ہولر کی غیر جانبداری پر اسرائیل کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کے ججوں پر اسرائیلی ریاست کے اعتراضات بے بنیاد ہیں۔ عدالت نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآف گیلانت کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ مکمل شفافیت کے تحت جاری کئے ہیں۔عدالت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی نیتن یاہو اور یوآف گیلانت کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ کی جانچ کرنے والے پری ٹرائل چیمبر میں نئے تعینات ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ ۲۵؍ اکتوبر کو عدالت نے رومانیہ کی جج جیولیا موٹک کی جگہ سلوینیاکی جج ہولر کی تقرری کا اعلان کیا جو ابتدائی چیمبر کی سربراہ ہیں اور نیتن یاہو اور گیلانت کی گرفتاری کے وارنٹ کا جائزہ لے رہی ہیں۔نئی جج سے سوال کرتے ہوئے اسرائیلی اٹارنی جنرل کے دفتر نے دعویٰ کیا کہ ہولر نے بطور جج تقرری سے قبل بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کے دفتر میں کام کرتی تھی۔ اس سے ان کی غیر جانبداری مشکوک لگتی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کی خبر کے مطابق عدالت کی طرف سے شائع ہونے والے اپنے سرکاری جواب میں ہولر نے اشارہ کیا کہ اس نے پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر میں کام کے دوران مسئلہ فلسطین کی تحقیقات میں براہ راست یا بالواسطہ حصہ نہیں لیا۔ اس نے تحقیقات میں شامل ملازمین کے ساتھ کام نہیں کیا۔ میں نے اسرائیلی حکام کے خلاف تحقیقات کی دستاویزات، اس کے منصوبے، دستاویزات، شواہد یا خفیہ فائلوں کو کسی بھی طرح سے نہیں دیکھا اور اس نے تصدیق کی کہ یہ معلومات اور دستاویزات انہیں کسی بھی طرح پیش نہیں کی گئیں۔ ہولر نے وضاحت کی کہ اس نے اس عہدے پر کام نہیں کیا جس نے اسے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں تمام تحقیقات تک رسائی حاصل ہو۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جن مقدمات میں اس سے مشورہ کیا گیا یا جس میں اس نے پراسیکیوشن آفس میں اپنے کام کے دوران رائے دی۔ ان میں فلسطین سے متعلق تفتیش شامل نہیں تھی۔ ہولر نے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ ایک جج جس پر معقول وجوہات کی بناء پر جانبداری کا شبہ ہو ،اسے مستعفی ہو جانا چاہئے۔ وہ ان خوبیوں سے واقف ہیں جن کی اس کے عہدے کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی اٹارنی جنرل کے دفتر سے مطالبہ کیاگیاہے کہ وہ اس معاملے پر عدالت کے سامنے وضاحت کرے۔